آئینے سے جھانکتی لکیریں
محمد حمید شاہد
میں اَپنی نگہ میں سمٹ کر بھدی چھت سے پھسلتی دِیوار تک آپہنچی تھی۔
میں نیچے آ رہی تھی ےا دِیوار اُوپر اُٹھ رہی تھی؟
کچھ نہ کچھ تو ضرور ہو رہا تھا۔
اور جو کچھ ہو رہا تھا وہ میرے باطن کے کٹورے کو اطمینان کے شیریں
پانیوں سے کناروں تک بھر رہا تھا۔
باطن کا شہر بھی عجیب ہوتا ہے۔
بدن کو گھیرتی دیواریں گر جائیں ےا ہیچ ہو جائیں۔ تو اندر کے بانجھ
پرنالے بھی شرڑ شرڑ بہنے لگتے ہیںاور ساری گلیاںاطمینان کے گدلے
پانیوں سے جل تھل ہو جاتی ہیں۔
پھر ےوں لگتا ہے کہ وہ شہر جو ابھی ابھی پانیوں میں ڈوب رہا تھا‘اب
وہی اُن پانیوں پر تیر رہا ہے۔
اور جب میں‘ اُوپر ہی اُوپر تیر رہی تھی۔
تو میں نے اَپنی آنکھوں سے نکل کر پھیلنا شروع کر دِیا۔
پھر جب میں بہتے پر نالوں کے پانیوں کی طرح سارے کی ساری اَپنی
آنکھوں سے نکل چکی تو وہ تل برابر رہ گئیں۔
تل کے ےہی دَانے تیرتے تیرتے اُوپر اُٹھنے لگے اور میرے چہرے پر
پہنچ کر پیشانی کے عین نیچے نصب ہو گئے۔
اَب مَیں جِسے دیکھ رہی تھی‘وہ آئینہ تھا۔
وہ آئینہ تھا یا میں تھی ؟
شاید وہ آئینہ بھی تھا اور میں بھی!
اگر میں آئینے کے اُس طرف تھی تو پھر اِدھر کون تھی؟
جستجو قدم بڑھاتے میرے سینے تک آپہنچی تھی۔
اوروہ‘ جو آئینے کے باہر تھی‘اپنے آپ میں سمٹتی چلی گئی۔
آئینے کے اُس پار والی تصویر بن گئی۔
اور آئینے سے باہر والی ‘پامال مسافتوں کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔
ٍ
میں کیوں چل رہی تھی؟
شاید مجھے بھوک لگی تھی۔
مگر میرا پیٹ کہاں گیا؟
میں نے اُس جگہ کو ٹٹولا جہاں شکم ہونا چاہیے تھا لیکن وہاں تو بس
شکنیں ہی شکنیں تھیں۔
بھوک تو اُسے ہوتی ہے‘ جس کا پیٹ ہو۔
تو میں بصارت کی طلب میں ہوں گی تاکہ میں اُسے اَپنی آنکھوں میں
بسا سکوں !
مگر؟
شاید جس کے چہرے پر تل برابرآنکھیںنصب ہوئی تھیں وہ آئینے سے پار
رہ گئی تھی کہ
اِدھر تو آنکھوں کے گڑھے بھی موجود نہ تھے۔
شاید مجھے کسی شے کی تلاش نہ تھی۔
اور میں نے بے نام سفر سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔
مگر میرے قدم بھی تو نہیں تھے۔
ایک سفر تھا‘ جو میرے اَندر ہورہا تھا۔
دَم بہ دَم بڑھتی قدموں کی چاپ غالباً اِسی باطنی سفر کی تھی۔
چاپ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
یا وہ شور بڑھ رہا تھا‘ جو بالکل چاپ جیسا تھا۔
میرے اندر کا غیر مرئی ”میں“ قدموں کے بغیر بھی چاپ پیدا کر رہا
تھا‘
یوں کہ دھرتی لرز رہی تھی۔
وہ آنکھیں نہ ہونے کے باوجود ‘بصارت کی اُنگلی تھامے ‘مخصوص سمت
بڑھا چلا جا رہا تھا۔
ایسے کہ‘ منزل اُس کی جانب کھچی چلی آتی تھی‘
اور پیٹ نہ رَکھتے ہوے بھی اپنا وجود تازہ دم رکھے ہوے تھا‘جیسے
حیاتِ جاوداں کا اَمرت رس پی رکھا ہو۔
اس کا سفر مسلسل آگے ہی آگے کی جانب تھا۔
اُس غیر مرئی وجود کا لباس میرا کریہہ بدن تھا جو نظرانداز ہو
کربُھربُھرا ہو گیا تھا۔
جب ساری بُھربُھری مٹی جھڑ گئی تھی تو میرے اندر کا ”میں “الف ننگا
ہو گیا تھا۔
بدن کی بھر بھری مٹی یخ بستہ زمین پر بکھری پڑی تھی اور زرہ زرہ
تھر تھر کانپ رہا تھا۔
زمین ایسے یخ بستہ تھی‘
جیسے دسمبرکے آخری کنارے پر رات کی ٹھٹھری ہوئی لاش ‘
اور غیر مرئی وجود ننگا ہی آگے بڑھ رہا تھا۔
کبھی تاریکی روشنی میں مدغم ہوتی تھی اور کبھی روشنی تاریکی میں۔
پھر راہ میں خُونی معرکے آپڑے۔
”بول میری مچھلی
کتنا پانی....؟
گوڈے گوڈے پانی۔“
پانی؟....پانی اور خُون کی پہچان ختم ہو چکی تھی۔
سانس پھولنے لگی تھی۔
اور غیر مرئی وجود (؟) میں تیرتا اپنے چہرے کی جھریوں میں تاریکی
اور اُجالے کے نقوش سمیٹتا چلا جا رہاتھا۔
پھر پھولی سانسیں ٹوٹنے لگی تھےں۔
اور اس ٹوٹ پھوٹ سے ایک سانحہ نمودار ہوا۔
روشنی چہرے سے نچڑتی چلی گئی۔
اور درپیش تاریکیاں جھریوں میں جذب ہونا شروع ہو گئیں۔
یہ عین اس وقت ہواجب دھیان کی ڈور ڈھیلی پڑ گئی تھی۔
پھر وہاں‘ جہاں محض گڑھے تھے۔
وہاں ایسی آنکھیں بھی اُگ آئی تھیں جو فقط باہر کی جانب دیکھ سکتی
تھیں ۔
اندر تاریکی کا جنگل اُگنے لگا۔
اندھیرے کی غذا پا کر شکم خود رو جھاڑیوں کی طرح بڑھنا شروع ہو گیا۔
اور چاپ قدموں کی زائیدگی کا دُکھ سہہ کر ٹوٹ رہی تھی۔
پھر جو قدم آگے کو دھرے گئے وہ پیچھے پڑرہے تھے۔
آنکھیں تھیں مگر بصارت لکنت زدہ ہوگئی تھی۔
ہاں پیٹ مسلسل پھولتا چلا جا رہا تھا
حتیٰ کہ غیر مرئی وجود اس میں سمٹتا چلا گیا ۔
شفق کی سرخی دھرتی پر اتر آئی۔
وہ سرخی جو فلک کے ماتھا پیٹنے سے پھوٹ پڑی تھی۔
اور وہ دھرتی‘ جہاں اَپنی ہیئت بدلتے وجود نے‘ قدم آگے کو دھرے تھے
اور الٹے پڑے تھے؛ وہ دولخت ہو گئی تھی۔
اور‘ اور....
شفق کی ساری سرخی اس دولخت دھرتی میں آکر پھنس گئی تھی۔
تب سوالوں کی بوچھاڑ ہوئی تھی۔
”کون؟.... کیوں؟.... کیسے؟.... کس لےے؟“
سوچ قدموں کی زنجیر بننا چاہتی تھی۔
مگر پیٹ نے پھیل کر‘ہیئت بدلتے وجود کو‘ اس کی سوچ اور سوال سمیت‘
اپنے اندر لے لیا تھا۔
میں لڑھک رہی ہوں‘ بوسیدہ چتھڑوں سے بنے کھِدو کی طرح۔
کیا میں واقعی کھِدو ہوں؟
پھر میرا اندر لِیرلِیر کیوں ہے؟
میں لوگوں کے قدموں کی زد پر کیوں ہوں؟
ایک خاص سمت میں کیوں نہیں بڑھ رہی ؟
لمحہ بہ لمحہ میری سمت کیوں بدل رہی ہے؟
اور....اور اس ٹھوکر کو تو بہت شدید ہونا چاہیے تھا کہ جس سے دھرتی
دولخت ہوگئی تھی اور شفق کی سرخی اس میں آپھنسی تھی۔
مگر میرے قدم اُلٹے پڑتے چلے گئے۔
اور اب میں ایک مرتبہ پھر اس بھدی چھت تلے ہوں جہاں سے پھسل کر
دیوار تک پہنچی تھی۔
سامنے آئینہ ہے‘جس میں مَیں کسی اور کو دیکھ رہی ہوں۔
اور جو آئینے کی دوسری جانب ہے‘ مجھے نفرت سے دیکھ رہی ہے‘
مجھ سے کَہ رہی ہے:
”میں تمھارا چہرہ نہیں ہوں“
میں یقینی اور بے یقینی سے آنکھ مچولی کھیل رہی ہوں۔
میرے اندر جو سوچ کی بڑھیا چرخہ رکھے سوت کاتنا چاہتی ہے
اس کی تند کب کی ٹوٹ چکی ہے
جب کہ ترکّل ٹیڑھا ہے۔
آنکھوں کے سرخ ڈورے یوں پھیلے ہوے ہیں ‘ جیسے گاڑی کے نیچے آکر
کچلے جانے والے بوڑھے کی انتڑیاں۔
میری آنکھیں ایسی تو نہ تھیں۔
شک اور تشویش نے بے یقینی کے کان میں سرگوشی انڈیل دی ہے۔
مگر آئینے کی دوسری جانب والا چہرہ یقین کی اُنگلی تھامے آگے بڑھتا
ہے اور ایسی یخ بستہ ہنسی ہنستا ہے کہ میں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہوں۔
عجب چہرہ ہے‘دسمبر کی ٹھٹھری رات کی طرح سرد۔
اکتیسویں سال میں قدم رَکھتی یتیم کنواری کے چہرے کی طرح زرد۔
وقت کا سمندر آگے بڑھنے کے لےے عقب سے آنے والی لہروں کو سمیٹنے
پیچھے ہٹتاہے تو میں چہرے کے ساحل پر وقت کے سمندر کی شوخیوں سے
پیدا ہونے والی لکیروں کو گننا شروع کر دیتی ہوں۔
اکتیس‘ بتیس‘پینتیس‘ چالیس‘ پینتالیس‘ سینتالس....
لہر در لہر‘لکیریں ہی لکیریں
میں دیکھ رہی ہوں‘
ہر آخری لکیر کے بطن سے ایک اور لکیر جنم لے رہی ہے۔
میں گِن رہی ہوں۔
گنتی جارہی ہوں۔
حتیٰ کہ ہونٹ بے سکت ہوتے جارہے ہیں۔
مگر لکیریں‘ وہ تو مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
میری گنتی کا انتظار کیے بغیر‘
مجھے روندتی ہوئیں‘مجھے کچلتی ہوئیں۔
|