افتخار نسیم
۔ ایک انوکھا سچ
نوشی گیلانی
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب جانِ حزیں پہلی ہجرت کے تجربے سے گزر رہی تھی۔
ہجرت کا ایک تجربہ اپنے اندر کی متضاد تجربات کا عجیب سا تسلسل رکھتا ہے۔
جب ہم کسی نئی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو یقین و بے یقینی، شناسائی و نا
شناسائی، رنگ و بے رنگی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یوں استقبال کرتے ہیں کہ جسم و
جان پر عہدِ اختیار میں بھی بے اختیاری کے سائے سے ٹھہر جاتے ہیں۔ دھوپ میں
بارش کی سی کیفیت بے درودیواراسیری میں لئےرکھتی اور انسان جانے کس تذبذب
کے عالم میں بھیگتی
ٓ
آنکھوں سے مسکرانے لگتا ہے۔ لیکن ایسا بھی تبھی ممکن ہوتا ہے جب انسان
شعوری سطح پر ان تجربات کے رنگ ڈھنگ جان لینے کی جراٌت و بصیرت سے نوازا
گیا ہو اُس نیلی چھتری والے کی طرف سے۔ ۔۔ ورنہ تو عمر گزر جاتی ہے اورآگہی
کا در وا نہیں ہوتا، ذات سے کائنات تک رائیگانی کی برف گرتی رہتی ہے اور
حسّیات گردونواح سے ایک بے معنی تعارف کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھتیں اور
لمحۂ موجود سے کبھی کوئی رشتہ نہیں بن پاتا۔
مگر اگست 1995 میں جب اِفتی نسیم نے اپنے مافوق ا لزمیں حلیے یعنی موٹی
موٹی زنجیروںسے لدی سیاہ جیکٹ، گلے میں مالا، کلائی میں موٹے سے کڑے اور سر
پر سیاہ ڈاربی ہیٹ کے ساتھ گھر کے دروازے کے اندر قدم رکھا تو میں، انتہائی
مسرت کے باوجود کھڑی کی کھڑی رہ گی اور پھر میری حیرانی کا لطف لیتے ہوئےجب
افتی نے بڑی شدید حیرت سے داہنے ہاتھ کی انگلی اپنے نچلے ہونٹ پر رکھ کر
اِک خاص انداز کی مترنم چیخ مار تے ہوےٌ کہا’’ ۔۔۔۔نوشی گیلانی؟؟؟ ایہہ
تُوں ایں؟؟؟‘‘ ، تو میں جہاں بے ہوش ہوتے ہوتے بچی وہاں میرے گرد برسوں کی
بڑی محنت سے بنایا ہوا احتیاط و تکلف کاحصار اچانک ٹوٹ گیا۔ اور جیسے
روایتی تعارف کی ضرورت ہی نہ رہی اور ایک رشتہ سا بن گیا۔ ۔۔ فطری ، براہِ
راست اور سچا!
افتی جو میرا ددوست بھی ہے، بھائی بھی اور سہیلی بھی! کسیی سہولت ہے آج کے
دورِ مصلحت آمیز میں ۔۔۔کہ اسکے پاس کوئی ایسا بھی ہو جس سے وہ پورا سچ بول
سکے، پوری بات کر سکے اوروہ بھی مجھ ایسی شاعر عورت ! جو شاعری کے حوالے سے
حادثاتی طور پر مروجہ نام آوری کی سزاوار بھی ہو کہ نام آوری یکتا کرتی
ہویا نہیں تنہا ضرور کر دیتی ہے اور اس حقیقت کا ادراک تب ہوتا ہے جب عمر
کا آدھا خزانہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ کسی اور کا تجربہ کچھ بھی رہا ہومجھے
افتی کے ساتھ احترام و طمطراق سے پورا سچ کہہ دینے کی سہولت پہلی ہی ملاقات
میں میسر آ گئی۔ کتنے ہی ماہ و سال گزرگئے، افتی اور میں موقع بے موقع ،
ملک بہ ملک، شہر بہ شہر ذات سےکائنات تک جشنِ ملامت برپا کرتے آرہے ہیں۔
ستائشِ دنیا کے بالعموم اور ستائشِ باہمی کے بالخصوص خیمے لگاتے چلے آرہے
ہیں۔ ۔۔ اِس عمل کی مسیحائی کا کمال ہے۔ سو افتی میرے بھائی میری سہیلی!
تمہاری خیر ہو! میری زندگی تک تو زندہ ہی رہنا! !!
افتی اور میں دونوں ہی بلا ارادہ بس خوبیِ قسمت سے لڑکپن میں ہی شہرت کے
سلسلہِ من و تُو کا حصہ بنگئے۔ یوں بتدریج ذات سے باہر کی آوازوں کا شور
اتنا بڑھ گیا کہ جیسے شعور سے لا شعور تک سنہرے ستاروں والی سیاہ اوڑھنی
ڈال دی گئی ہو ۔ جسکا لمس کبھی تو مست الست کرتا اور کبھی حوصلے پست. ہم
دونوں نے اپنے اپنے خاندانی پس منظر اور اپنی اپنی بستیوں کے تناظر میں
رہتے ہوےٌ ، ریاضتِ روزوشب کا آغاز کیابھرپور فخرو انبساظ کے ساتھ ساتھ
تخلیقی و معاشرتی ذمہ داریاں ذہنی دباؤ کی حد تک بڑھتی گئیں . اور نو عمری
کے اصل تقاضے وجود کے کسی کونے میں چھُپ کر بیٹھ گئے۔ میں نے گُڑیاں کھیلنے
کی عمر امرتا پریتم کی رسیدی ٹکٹ، احمد راہی کی ترنجن، احمد ندیم قاسمی کی
جلال و جمال کو پڑھتے اور گھر کی چھت پر چاند کی نرم روشنی میں چھُپ چھُپ
کر نظمیں لکھتے گزار دی۔ اور افتی نے اپنے معروف والد کے ہمراہ اِن جید
ہستیوں کی میزبانی کرتے، انکے مباحث کے اسرار و رموز پر غور کرتے اور چپکے
چپکے غزل کہتے گزار دی۔۔۔ بھلا دہائی بھی دیتے تو کس بات کی؟ ستائش و
دشنام، دشنام و ستایش۔۔۔ اللہ اللہ !
سان فرانسسکو میں جب جب ملاقات کا موقع ملتا رہا ، افتی اور میں وہاں کے
مقبول کیفے Star Bucksمیں گھنٹوں بیٹھا کۓ۔ یہ کیفے امریکہ کے دوسرے
موالیوں کی طرح ہمارے لئےبھی لائبریری کے ساتھ ساتھ ا یک طر ح کاConfession
Box بھی رہا ہے۔ کڑوی کافی کے طویل القامت کپ پیتے ہوےٌ کتنی ہی باتیں ہوا
کیں،بے شمار یادوں کو تازہ کیا گیا، کیسی کیسی حیرتوں پر حیراںہوےٌ، کیسے
کیسے معجزوں پہ خوش گماںہوےٌ، کیا کیا نہ قصے دہراےٌ گےٌ، اعترافات و
اعتراضات کے انبار لگاےٌ گےٌ۔ ۔۔ اتفاقِ راےٌ کم کم اور اختلافات بے
حدوحساب۔ ہم نے مل کر اپنے خوابوں کی عدم تکمیل پر قہقہے لگا لگا کر زنجیر
زنی کی، فتوحات کے اعلان نامے جاری کرتے ہوےٌ باربار اپنے آپ کو ناز سے
دیکھا۔ بعض اوقات تو جوشِ بیاں میں ہماری آوازیں اتنی اونچی ہو جاتیں کہ
کیفے میں بیٹھے لوگ پلٹ پلٹ کر دیکھنے لگتے۔ میں تو معذرت کیلےٌ مسکرا کر
ہاتھ ہلا دیتی مگر افتی باقاعدہ اپنے گہرے سنہری بُت پر منڈھے ہوےٌ فر کے
لمبے کوٹ کو ساڑھی کے پلّو کی طرح درست کرتا، گردن اور بازؤوں میںآویزاں
جھلمل پتھر جڑے زیورات کی نمائش کرتے ہوےٌ اپنے سیاہ ہیٹ کو سر سے ذرا سا
اوپر اٹھاتا اور زوردار قہقہہ لگاتا۔۔۔ یہی اسکی معذرت تھی۔
میں نے محسوس کیا کہ وہ معذرت کرتے ہوےٌ بھی کبھی سر کو خم نہیں کرتا۔ اول
اول افتی کے اس انداز پر شبہ سا ہوا کہ کہیں اسے اپنے ہو نے کا احساس
خودپرستی کی حد تک تو نہیں؟ کہیں وہ اپنی میں کا اسیر تو نہیں؟ ۔۔۔ پر
نہیں! کہ وہ جب اپنے نام سے وابستہ تہمتیں ، گزرے ہوےٌ دکھ کی راتیں، ڈھلتی
عمر کے خوف شمار کرتا ہے۔اورجب محبتوںکی بازیافت پر بھی بے سروسامانی کا
نوحہ کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے اور پھر کہیں کسی مقام پر اچانک رک کر
کہتا ہے۔ ۔۔۔’’رہے نام اللہ کا‘‘ ، تو بس پھر اللہ کا نام ہی رہ جاتا ہے۔
لگتا ہے افتی کے ذوقِ محبت کی طرح اسکا طرزِ عبادت بھی جداگانہ ہے۔
افتی اور میں سمندر کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوےٌ کتنی ہی بار شام کی دبیز
دھندکی چھاؤں میں بے تحاشا اداس ہوےٌ۔۔۔ وہ اک سڑک پر پیلے مکان کی یاد میں
نڈھال ہوتا رہتا اور میں تتلیوں کے پروں پر لکھے خطوط دھندلے ہو جانے پر
آزردہ ، اپنی اپنی ماوٌں کے غم اک دوجے سے کہے جاتے، فاختاؤں کے جوڑے دیکھ
کر مانگی جانے والی دعاؤں کے تذکرے ہوتے، چوُڑی توڑ کر نکالی جانی والی فال
اور کسی انہونی کے ڈرسے پڑھے جانے والے نوافل پر ہنستے ہنستے بے حال ہو
جاتے۔گفتگو کے کتنے ہی گرداب کھینچے جاتے۔۔۔ گڑیا کی شادی پر انتظامی
کمالات کے مظاہرے، پنجاب کی شادیوں میںگاےٌ جانے والے گیتوں کی دلسوزی،
سریندر کور کی بولیاں اور مٹی کے دکھ سکھ، نصرت فتح علی کی قوالیوں میں سُر
کے معجزے، ملکہِ ترنم نُور جہاں سے افتی کی والہانگی، میں بابا جی بلہے شاہ
جی کی کافیوں میں حال دھمال کی کیفیت کو تصوف کا حرفِ آخرقرار دیتی اور
افتی حضرت شاہ حسین کی رمزِ عشق کو۔۔۔۔ فلسفہِ خودی سے لے کر فلسفہِ خیروشر
تک کونسا موضوع تھا جو ہماری Folk Wisdom سے محفوظ رہ سکا.
افتی ایک منفرد انسان ہے اسکا وجود ایسی مٹی سے ڈھالا گیا ہے جس میں عورت
کی حساسیت اور خود سپردگی اور مرد کا حوصلہ اور سرکشی کچھ یوں گھُل مل گئے
ہیں کہ انہیں جدا کر کے دیکھنا بہت مشکل ہے، یکجا کر کے دیکھنا اور بھی
مشکل۔۔۔ ورثہ میں ملے کتنے ہی نظریات میں ردوبدل کرنا پڑتا ہے، آزمودہ
روایات کو پسِ پشت ڈالنا پڑتا ہے، مگر یہ سب کشمکش بے معنی ہو جاتی ہے جب
افتی کسی سرپھرے یقین کے ساتھ کہتا ہے You have to love me توپھر کہاں کے
نظریات اور کونسی روایات!
یہی حال میرے خداےٌ مجازی سعید خان کا بھی ہے۔وہ بھی افتی کی محبت میںاس حد
تک مبتلا ہو چکے ہیں کہ سڈنی کے مصروف ترین راستوں پرگاڑی چلاتے سٹیرنگ سے
تقریباٌ دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یہاں وہاں فون تلاش کرنے لگتے ہیں، یہ
کہتے ہوےٌ ’’ ۔ ۔۔۔ دیکھوذرا رستوں کے کنارے کنارےJacaranda کے کاسنی پھول
کتنے بھلے لگ رہے ہیںچلو افتی کو بتاتے ہیں‘‘ ۔ یا جب کبھی ہماری طبعِ
شاعرانہ پر یاسیت کا حملہ ہوتا ہے تو جھٹ افتی کا نمبر ملایا جاتا ہے ۔
جیسے افتی نہ ہوا کوئی طبیب ہو گیا ! اب تو افتی سے محبت میرے اور سعید کے
درمیان ایک قدرِ مشترک بن چکی ہے۔۔۔۔ مولاہی کرم کریں.
افتخار نسیم کا اپنا ایک انوکھا سچ ہے اور اپنی ایک انوکھی جنگ۔۔۔ چند
دہائیاں پہلے جب فنِ شعروسخن اس پر منکشف ہوا تو احمد ندیم قاسمی صاحب کی
زیرِ ادارت جاری ہونے والے تاریخی جریدے فنون نے اُس کی تخلیقات کو اپنے
دامن میںشفقت سے سمیٹ لیا۔ اسکی غزل کا دلربا لہجہ قارئین کی خصوصی توجہ کا
باعث بنا اور پھر اپنے پہلے شعری مجموعے ’’۔۔ غزال‘‘ کی اشاعت سے ہی افتخار
نسیم نے جمالِ فکروفن سے اردو شاعری کے منظر نامے پر نمایاں مقام حاصل کر
لیا۔
بارشوں کے بعد ست رنگی دھنک آجاےٌ گی کھُل کے رو لو گے تو چہرے پر چمک
آجاےٌ گی
آج بھی مجھ کو یہ لگتا ہے کہ اگلے موڑ پر جس پہ اک پیلا مکاں تھا وہ سڑک
آجاےٌ گی
کچھ نہیں سمجھے گا کوئی لاکھ تم کوشش کرو جب دلوں کے درمیاں دیوارِ شک
آجاےٌ گی
پھر وہ زمانہ آیا کہ افتخار نسیم عشق و رزق کے قافلوں کے ہمراہ امریکہ
آگیا۔ یہاں ایک نئی دنیا کی دریافت کا عمل شروع ہو گیا۔ کیٌ مقامات پر
تاریکی نے اندر کی روشنی کو شکست د ی توکیٌ موڑ آےٌ جہاں بصیرت نے روشنی کے
کرشمے دیکھے۔ وہ ہجرت کی اس مسافت میں جب سفر کے گیت گاتا تو کبھی اسکی لے
میں پُر جوش مسافر کی سی وارفتگی ہوتی اور کبھی اسکی آواز میں عزاداروں
جیسا سوزو شکستگی۔ کتنی ہی مرتبہ روح پارہ پارہ ہویٌ، کیٌ جگہ پاؤں پھسلا
مگر بظاہراس کفر کے مجسمے نے دعا کی ڈورمضبو طی سے تھامے رکھی۔ بقول حضرت
میاں محمد بخش؛
میں انہاں تےِلکن رستہ ، کِیویں کراں سنبھالا
دِھکے دیون والے بوہتے تُوں ہتھ پکڑن والا
افتی نے امریکہ میں قیام کے دوران تخلیقی سطح پر بھی فکرو بیاں کے کیٌ
تجربے کئے ناول ، افسانہ، انگریزی نظم او ر دیگر اصناف کو بڑی خوبی سے
برتا۔ اگرچہ اردو غزل، جو افتی کا خاصہ ہے اسکی مہم جُو فطرت کی وجہ سے کسی
حد تک نظر انداز ہوئی۔ افتی کے اہم کاموں میںعالمی امن کے قیام اور انسانی
حقوق کی بحالی کی مسلسل جدوجہد میںاپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔ اسکی یہ
لگن اسے شہر شہر کوچہ کوچہ لئے پھرتی ہے۔ اور وہ اپنے اس مشن کو سب سے مقدم
سمجھتا ہے اور اس حوالے سے وہ ایک معتبر حیثیت بنا چکا ہے۔ سماجی اور سیاسی
موضوعات پر اسکے لیکچرز نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہیں۔ معروف تعلیمی اور
حکومتی ادارے اسے متعدد بارPeace Awards سے نواز چکے ہیں اور یہ سلسلہ دیگر
ممالک تک بھی پھیل گیاہے۔
گزشتہ برسوںمیں افتی سے کتنی ہی ملاقاتیں رہیں لیکن 2007 میں آسٹریلیا میں
اردو کانفرنس میں شرکت کیلئے جب افتی اور میں آسٹریلیا روانہ ہوےٌ تو تسلسل
کے ساتھ تقریباٌ دس روز تک ، اسکی شخصیت کے رکھ رکھاؤ، مزاج کی وحشت اور ہر
لمحہ شرارت کے بے شمار چھوٹے بڑے مظاہرے دیکھنے میںآےٌ۔جیسا کہ حضرت علی
کرم ا للہ وجہہ فرماتے ہیں’’ اگر کسی کہ پہچاننا ہو تو اسکے ساتھ سفر کرو‘‘
۔ ایک اور موقع پرتاکید کرتے ہیں کہ اگر کسی کو جاننا ہے تو اسے عزت دے کر
دیکھو۔ ۔۔ سو میں نے افتی کے ساتھ سفر بھی کیا ، دل سے اسکی عزت بھی کی
لیکن مجھے کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ افتی ہمیشہ اصل زر کو سود کے ساتھ واپس
کرتا رہا ہے۔
اور یہ جو آج
میں اور سعید خان پردیس میں ایک پیاراسا گھر بساےٌ بیٹھے ہیں تو اس میں
اللہ کی رضا کے بعد میرے بھائی عرفی کے چاؤ اور افتی کی دباؤ کا بھی گہرا
عمل دخل ہے۔ جب کبھی فضاےٌ دل قدرے سازگار دیکھی تو افتی نے سعید خان کے وہ
وہ فضائل بیان کےٌ کہ فیصلہ سہل ہوتا گیا۔ شادی کے اگلے روز جب میں ہزارہ
کے روایتی ا نداز میں سجی سجائی دلہن بنی، بھاری آنچل چہرے پر گراےٌ بیچ
سسرال کے بیٹھی تھی کہ سعید نے یہ کہتے فون میرے ہاتھ میں لا تھمایا ’۔’
شکاگو سے افتی کی کال ہے‘‘۔ افتی نے خوشی سے چلاتے ہوےٌ مبارکباد دی اور
ساتھ ہی ایک یادگار دعو یٰ کیا ، ۔ ’’ نوشی یاد رکھنا میرے انکار کے بعد ہی
سعید سے تمہاری شادی ممکن ہو سکی‘‘ ۔
اور پھر بہ اصرار پروین شاکر کا شعر ذرا تبدیلی کے ساتھ بطور تحفہِ عروسی یوں
پیش کیا؛
کمالِ ضبط کو میں خود بھی آزماؤں گا
میں اپنے ہاتھ سے اسکا دلھا سجاؤں گا
اندازہ
کیجئےکہ نو بیاہتا نوشی گیلانی کا کیا حال ہوا ہو گا۔
یہ ہے افتی
اور اسکی افتی خیزیاں!!!۔ |