Urdu Manzil


Forum

Directory

Overseas Pakistani

 

نصرت زہرا

عرفانِ ذات کا شاعر ،عرفان ستار۔

وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسر ہو

اس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں

جیسے کسی درخت پر پتے نمو دار ہوتے ہیںپھول کھلتے ہیںا سکی کوئی وجہ نہیں ہوتی مگر پیڑوں کا جواز ہی یہ ہے کہ اس پر خوشبو،رنگ ،نگہت اور خوبصورتی آئے اور فضائیں معطر ہوجائیںعرفان ستار کے اس شعر کو پڑھتے ہوئے ایسے ہی احساس نے میرے ذہن میں سر اٹھایا۔ان کے لئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگاکہ شاعری ان کی فطرت میں شامل ہے اگرچہ شاعری اور طب دو مختلف شعبے ہیں مگرعرفان ستار تک آتے آتے ان دونوں کا وجود ایک دوسرے کےلئے ناگزیر ہوگیا ہے ۔عرفان ستار فارماسوٹیکل انڈسٹری سے وابستہ ہیں پاکستان کی ایک معروف فارماسوٹیکل انڈسٹری سے منسلک ہونے کے باوجود ان کی حسِ لطافت اپنی فطرت سے خوب انصاف کرتی رہیِ حسن کی تلاش ،معنی کے جہان نئے نئے امکانات کے ساتھ کلا سیکیت سے پہیم وابستگی نے معتبر شعراء کی صف میں شامل کردیا ہے ،طبیعات ان کی شخصیت کا لازمی جزو ہونے کے باوجود مابعد الطبیعات اور حیرتوں کے جہان ہر صفحے پر بکھرے ہوئے ہیں ساعتوں کے اس کی بہار کا نام تکرارِ ساعت ہے جو ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے ۔عرفان غزل کے شاعر ہیں ان کا سفر معلوم سے نامعلوم کی طرف بڑھ رہا ہے ۔

یہ بے سبب نہیں سودا خلانوردی کا

مسافرانِ عدم رہگزر کو دیکھتے ہیں

ٓایک دنیا کی کشش ہے جو ادھر کھینچتی ہے

اک طبیعت ہے کہ  آزارِ ہنر  کھینچتی ہے

کہاں لے جائیں اے دل ہم تیری وسعت پسندی کو

کہ اب دنیا میں وسعت کے سوا کیا  رہ گیا ہے

ایسا لگتاہے کہ دونوں سے نہیں نسبت مجھے
دم بخود عمرِ رواں سیل ِفنا بھی دم بخود
اور
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں کون یہاں تھا پہلے
ان کے اس رویے حسن و صداقت کی تلاش کرتے ہوئے اس ذہنی رویے کا پتہ چلتا ہے کہ حسن و خیر کی کھوج میں کسی اور جہان سے اپنا ربط بڑھاناچاہتے ہیں مگر یہ تو محض تصویر کا ایک رخ ہے ایک تہہ میں ان کا مشاہدہ تجربے سے ہم آہنگ ہوکر ابلاغ کرتا ہے تو دوسری تہہ میں حیرتوںاور جستجوکی انتہاؤں پر اپنے خالی پن سے منطبق ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے حیرت جو دراصل علم کی بنیاد ،جستجو اس تک پہنچنے کا زینہ اور مسلسل ارتقاء ا سکا حسن ہے ،حسن کی تلاش اوراپنی ذات کی کھوج کا سفر تو یوں بھی بہت قدیم ہے لیکن جب تک کہ احساس روح کی گہرائیوں تک نہ اتر جائے کہنے کا سلیقہ ادھورا ہی رہتا ہے عرفان ستار اس لحاظ سے بھی خوش بخت کہ وہ روح کے پاتالوں سے ایسے موتی چن کر لائے ہیں کہ جس نے ان کی شاعری کو ایک محسوس آہنگ میں تبدیل کردیا ہے یہی سچی اور کھری شاعری کی پہچان ہے کہ اس میں قاری کو اپنے پورے اور ادھورے عکس ضرور دکھائی دیں دوسری جانب جن سخن فہموں کو یہ گلہ رہتا ہے کہ جدید شاعری خیال سے محروم اور لطافت سے نابلد ہے ،تکرارِ ساعت نے اس خیال کو غلط ثابت کردیا ہے وہ خود کہتے ہیں  کہ شاعری میرے ہونے کے جواز کی تلاش مسلسل کے دوران میرے اظہار کا ایک ذریعہ ہے البتہ ان کی شاعری کسی سیاسی اور سماجی تحریک اور نظریئے کی ترجمان نہیں یہ ان کے اپنے ذاتی رنج اور سرشاریوں کی داستانِ مسلسل ہے گویا وہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں اور اس کا احوال وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں جو لوگ ان کے فروغِ ادب کی سعی ء مسلسل کویوں بھی دیکھتے رہے کہ کہ انہوں نے طب کی دنیا میںنابغہ ء روزگار تخلیق کاروں سے لے کر نو آموز لکھنے والوں کے فن کو یکجا کرکے متعارف کروایااور ان کے بعدآنے والوں نے بھی اسی روایت کو آگے بڑھایا دوسری جانب ان کا فن ہے کہ جو ارتقاء کی وادیوں میں نئے نئے سنگِ میل طے کررہا ہے۔
جنوں کے دم سے آخرمرتبہ کیسا ملا مجھ کو
ابھی فرہاد و قیس آئے تھے کہنے مرحبا مجھ کو
کسی صورت بھی رد ہوتا نہیں یہ فیصلہ دل کا
نظر آتا نہیں کوئی بھی تجھ سا دوسرا مجھ کو
سرِ کنجِ  تمنا پھر  خوشی  سے گنگناؤں گا
اگر وہ لوٹ کر آئے تو پھر تم دیکھنا مجھ کو
نجانے رشک سے غصے سے ، غم سے یا رقابت سے
یہ کس انداز سے تکتا ہے تیرا آئینہ مجھ کو
صبا میری قدم بوسی سے پہلے گل نہ دیکھے گی
اگر وحشت نے کچھ دن باغ میں رہنے دیامجھ کو
گزرگاہِ نفس ہوں میں مثالِ برگِ آوارہ
کوئی دم میں اڑالے جائے گی بادِ فنا مجھ کو
ازل سے تاابد دنیا سے لے کر آسمانوں تک
نظر آتا ہے تیری ہی نظر کا سلسلہ مجھ کو

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE