|
جوہر کانپوری پرندوں کے لبوں پر بھی تلاوت جاگ جاتی ہے سحر ہوتے ہی شاخوں پر عبادت جاگ جاتی ہے مقرر وقت کوئی بھی نہیں اس کی نوازش کا اسے جب بھی پکارو اسکی رحمت جاگ جاتی ہے الگ ہی ٹھیک ہیں ہم ورنہ اب تو ساتھ رہنے پر سگے بھائی کے سینے میں بھی نفرت جاگ جاتی ہے ہمیں جس وقت اخلاقِ پیمبر یاد آتا ہے تو دشمن کے لئے دل میں مروت جاگ جاتی ہے سیاست کو سنوارو سرحدیں آواز دیتی ہیں سیاست کی خرابی سےبغاوت جاگ جاتی ہے غزالوں کا بدن جھلسا کے رکھ دیتا ہے جو موسم اسی موسم میں اس چہرے کی رنگت جاگ جاتی ہے |