|
کاشف حسین غائر آنکھ اٹھتی ہوکوئی جیسے مدینے کی طرف آسماں دیکھتا رہتا ہے مدینے کی طرف سب کو خوش آتی ہے دربار محمد کی فضا مرنے والے بھی چلے آتے ہیں جینے کی طرف کھینچتی ہے مجھے سرکارِ دوعالم کی کشش اٹھتے جاتے ہیں مرے پاؤں مدینے کی طرف آپﷺ رستہ ہیں وہی آپ وسیلہ ہیں وہی جو ہمیں لے کے چلے خلد کے زینے کی طرف دیکھ سیلاب ِ بلا ان کے غلاموں کا مقام خودکنارا چلا آتا ہے سفینے کی طرف ایک مدت سے مرا دھیان لگا ہے غائر ان کی رحمت کی طرف ان کے خزینے کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا نہیں کہ دھیان جفا تک نہیں گیا تم سے ملے بغیر رہا تک نہیں گیا کیا رنگ تھے جو ہم سے سمیٹے نہیں گئے کیا خواب تھا جو ہم سے لکھا تک نہیں گیا اک قہقہوں کی گونج تھی جو گونجتی رہی اک دل کا شور تھا جو سنا تک نہیں گیا آئی ہوا خود آپ بجھانے چراغ کو کوئی چراغ لے کے ہوا تک نہیں گیا کیا آگ تھی کہ جس میں سلگتے رہے ہیں ہم کیا رنج تھا جو ہم سے کہا تک نہیں گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواب کی جادو گری رہتی ہے نیند آنکھوں میں بھری رہتی ہے جیسے رہتا ہی نہیں ہوں میں یہاں اک عجب بے خبری رہتی ہے ہم خیالوں میں سفر کرتے ہیں ہمسفر دربدری رہتی ہے دل ہے وہ آئینہ خانہ جس میں اک عجب عکس گری رہتی ہے خشک ہو جاتے ہیں پتے لیکن شاخ امکاں تو ہری رہتی ہے روح کے زخم کہاں بھرتے ہیں عمر بھر چارہ گری رہتی ہے ختم ہوتا ہے کہاں کار جہاں اک نہ اک دردِسری رہتی ہے |