Urdu Manzil


Forum

Directory

Overseas Pakistani

 

رومانیت کا شاعر

لبنیٰ صفدر

بعض لوگ شہرت کے محتاج نہیں ہوتے شہرت ان کی محتاج ہوتی ہے،وہ کام نہیں ڈھونڈتے، کام انھیں ڈھونڈلیا کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنے کام سے عشق کرتے ہیں اور شہرت کے پرپیچ راستوں سے بے نیاز اپنی ڈگرپر چلتے رہتے ہیں۔
 اسکول کا زمانہ تھا جب گھروں میں صرف پی ٹی وی کا راج تھا، ہمیشہ بہترین ناموں میں ایوب خاور صاحب کا نام سرفہرست ہوتا۔کوئی بھی کامیاب پلے چل رہا ہوتا تو پورا یقین ہوتا کہ پلے ختم ہونے کے بعد اسکرین پر ایوب خاورکا نام جگ مگائے گا۔اسکول لائف ٹین ایج کا دور ہوتا ہے جب عمدہ کام اور شہرت یافتہ ناموں کا زیادہ ادراک نہیں ہوتا لیکن نہ جانے اس میں کیا جادو تھا جس نے اس عمر میں بھی عمدہ کام کی پہچان کو آسان تربنا دیا تھا۔شعور کی پختگی عطا کی تھی۔

وقت تھوڑا سا آگے کوسرکا تو دھیان شاعری پڑھنے کی طرف ہوا تو کچھ اچھے اشعار ذہن پہ ثبت ہو کر رہ گئے جو آج تک اتنے ہی تروتازہ اور خوب صورت لگتے ہیں جتنے اس دور میں لگے تھے مثلاً۔ ۔ ۔
 

ترے بنا جو عمر بتائی بیت گئی

اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام
 ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں

اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں

متاعِ جاں بس اک خوشبو ہے اس کے نام کی خاور

اب اس خوشبو کے پیچھے زندگی بھر بھاگتے رہنا
 

اسی طرح ایک نہایت شان دار نظم تھی’’محبت تم نے کب کی ہے‘‘جو آج بھی میری پسندیدہ ترین نظموں میں سے ایک ہے۔

شروع میں یہ اشعار کسی میگزین میں دیکھے اور اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیے۔بعد میں پتا چلا کہ یہ سب اشعار ایوب خاور کے ہیں تو خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی کہ آخر یہ شخص اچھا پروڈیوسر ہے یا بہت اچھا شاعر۔

سچ پوچھیں تو اس کا فیصلہ کرنا نہایت کٹھن ہے۔

ایوب خاورکی شاعری میں رومانیت بھی ہے اور فن کاری بھی،شعور اور لاشعور کی معجزہ نمائی بھی اور اپنی ذات کے تمام راز جو انھوں نے پوشیدہ رکھنے کی کوشش نہیں کی۔پوری دیانت داری سے لوگوں کے سامنے رکھ دیئے، جتنا سچ اپنی شاعری میں ایوب خاورنے بولا ہے،اس کا حوصلہ ہر ایک کربھی نہیں سکتا۔

’’اُترن پہنوگے‘‘ جیسی نظم لکھنے کا حوصلہ ہر ایک میں کہاں ہوتا ہے۔

ایوب خاور اپنے اندر کے ہجر سے مسلسل نبرد آزما نظر آتا ہے۔ اُن کے شعری مجموعے ،تمھیں جانے کی جلدی تھی ، گل موسم خزاں اوربہت کچھ کھوگیا ہے، ہجر کی اذیت کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔

ساری شاعری میں سلسلہ نارسائی کا نہ ختم ہونے والا کب واضح ہے۔

زوالِ شب ہے ستاروں کو گرد ہونا ہے

پسِ نگاہ ابھی ایک غم کو رونا ہے

اب اس کے بعد یہی کارِ عمر ہے کہ ہمیں

پلک پلک میں تیری یاد کو پرونا ہے

یہی کہ سلسلہ نارسائی ختم نہ ہو

سو جس کو پانہ سکے ہم، اسی کو کھونا ہے

جو لفظ کھل نہ سکیں آئینے پہ، مٹی ہیں

جو بات دل پہ اثر کرسکے، وہ سونا ہے

تو اس کو توڑنا چاہے تو توڑ سکتا ہے

کہ زندگی ترے ہاتھوں میں اک کھلونا ہے

بس ایک چشم سیہ بخت ہے اور اک تیرا خواب

یہ خواب، خواب نہیں اوڑھنا بچھونا ہے

سفر ہے دشت کا اور سر پہ رختِ تنہائی

یہ بار بھی اسی عمر رواں کو ڈھونا ہے

اس رومانیت اس ہجر کی کیفیت میں سطحیت نہیں،گہرائی ہے۔ سر مئی شام میں قطرہ قطرہ پگھلتی تنہائی کا احسا س ہے، ایوب خاورکی شاعری میں ردھم ہے۔ترنم ہے ،ہجر کی کیفیت پڑھنے والے کے اندر یک دَم ،اداسی اور کڑواہٹ نہیں بھرتی بلکہ دھیمے دھیمے کرب کا میٹھا سا احساس اپنے اثر میں لے لیتا ہے۔
,مشہور انڈین شاعر،افسانہ نگار اور فلم ڈائریکٹر گل زار نے ’’تمھیں جانے کی جلدی تھی‘‘میں بڑی خوب صورتی سے ایوب خاورکی اس کوالٹی کو تسلیم کیا ہے۔کہتے ہیں:

’میں شاعری کچھ ایسے ہی سپ کرتا ہوں دھیرے دھیرے مہکتی ہوئی گرم چائے کی طرح یا برف پر پگھلتی ہوئی وہسکی کی طرح، ہونٹوں کے اوپر سے سرکتی ہوئی، زبان کو چھوتی ہوئی، حلق سے نیچے اُترتی ہے اور پورے سسٹم میں گھلتی چلی جاتی ہے جسم کا درجہ حرارت مدھم مدھم بڑھنے لگتا ہے، میں ایوب خاور کے شعر بھی اسی طرح SIP کرتا ہوں ،پھونک پھونک کر،چسکیاں لے کر حلق سے نیچے اُتارتا ہوں۔‘‘

دل کی چوکھٹ سے لگا بیٹھ ہے تنہائی کا چاند

اور اچانک کسی جانب سے اگر توُ نکل آئے

دل کی رگ رگ نچوڑ لیتا ہے

عشق میں یہ بڑی مصیبت ہے

شکستہ دل نہ ہوئے ضبط آشنا ترے لوگ

مگر وہ غم جو ہمیں عمر رائیگاں نے دیے

ایوب خاور نے سب سے ہٹ کر اپنی الگ راہ متعین کی ہے اپنا انداز سب سے جدا رکھا ہے۔ جس خوب صورتی سے انھوں نے غزلیں کہیں اتنی ہی خوب صورتی سے نظم میں اپناآپ منوایا، مجید امجد،ن۔م راشد اور اختر حسین جعفری کے ساتھ ایوب خاور نے نظم میں ایک الگ معیار قائم کیا، ایوب نظم میں بھی تسلسل توڑے بغیر پوری بات کو بیان کرنے کا فن جانتا ہے کبھی کبھی اچانک وہ قاری کو حیران کردینے کے ہنر سے بھی واقف ہے جسے ایک نظم ’’تمھیں جانے کی جلدی تھی‘‘ کے آخری چند مصرعے ملاحظہ فرمائیں۔

اورتمھیں معلوم ہے

کپڑوں کی الماری ہمیشہ سے کھلی ہے

سیف کی چابی تو تم نے خود ہی گم کی تھی

سو وہ تب سے کھلا ہے اور اس میں کچھ

تمھاری چوڑیاں، اک آدھ انگوٹھی اور ان

کے بیچ میں کچھ زرد لمحے اور ان لمحوں کی گرہوں

میں بندھی کچھ لمس کی کرنیں،نظر کے زاویے

پوروں کی شمعیں اور سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی

سانسیں ملیں گی اور وہ سب کچھ جو میرا اور

تمھارا مشترک سا اک اثاثہ ہے

سمٹ پائے تو لے جانا

مجھے جانے کی جلدی ہے

دعا ہے کہ اس مخلص اور خوب صورت انسان کے فن کی قامت کو اللہ تعالیٰ یونہی قائم رکھے۔آمین۔

 

 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE