|
محمود غزنی اگر چہ غیر کے قبضے میں گھر اپنا نہیں ہے مری دانست میں یہ بھی ہنر اپنا نہیں ہے پرندے جب تھکن سے چور ہوکر گر پڑے تو کھلا ان پر، کیا ہے جو سفر اپنا نہیں ہے مری بستی کے باسی اس قدر خاموش کیوں ہیں تو کیا سولی پہ جو لٹکا ہے سر اپنا نہیں ہے میں کہتا تھا مگر کوئی نہیں سنتا تھا میری یہ جو کرسی نشیں ہے تاجور اپنا نہیں ہے کھڑے ملبے پہ کچھ معصوم بچے سوچتے ہیں تو کیا اب شہر بھر میں کوئی گھر اپنا نہیں ہے فقیروں کی طرح پھرتے ہیں ہم کشکول لے کر سمجھتے ہیں قبیلہ دربدر اپنا نہیں ہے کریں گے اس کے ہراک حکم کی تعمیل غزنی اگرچہ آسمان و بحر وبر اپنا نہیں ہے |