|
محشر زیدی شوق جو چاہے وہ نا مرغوب ہو ایسا بھی کیا مانگنے والا فقط محجوب ہو ایسا بھی کیا ہر کتابِ آرزو نم ہو وفور ِ اشک سے زندگانی دیدہ ء یعقوب ہو ایسا بھی کیا لطفِ ہستی صاحب ہستی کا بھی مقسوم ہو سب وہی ہو جو تجھے مرغوب ہو ایسا بھی کیا زیر دستوں پر بھی ہو ،گاہے توجہ کی نگاہ بےنیازی ہی ترا اسلوب ہو ایسا بھی کیا سجدہ لازم ہو تری فکرِ بہشت آثار کو اور ہمارا خوب بھی نا خوب ہو ایسا بھی کیا سب طرفدارانِ حرص و آز ہوں محفل کی جان حق ہمیشہ دہر میں مصلوب ہو ایسا بھی کیا شوق ِ مہمانی بھی ہےجلوؤں کی ارزانی بھی ہے دیکھنا محشر اسے معیوب ہو ایسا بھی کیا |