تیرے نام کی آہٹ
نام :ناہید ورک
تاریخِ پیدائش15اکتوبر
برج:میزان
پیشہ:سوفٹ وئر انجینئر
-تعلیمی قابلیت:ایم ۔ایس
رہائش:مشی گن (امریکہ
اصنافِ سخن :غزل، نظماولین
مجموعہ کلام :تیرے نام کی آہٹ
شاعری کی ابتداء16، برس کی عمر میں پہلی نظم لکھیجہانِ ادب میں ناہید ورک
کا نام بہت نیا ہے حا ل ہی میں انکا پہلا مجموعہ کلام تیرے نام کی آہٹ نواب
سنز راولپنڈی سے شائع ہوا ہے ناہید کا اولین مجموعہ کلام انکی ذاتی
وارداتوں کا اظہار یہ ہے انہوں نے اظہار کیلئے صنف غزل کا انتخاب کیا ہے
کیا کہا یہ دل میراناقابلِ تسخیر ہے
اب تجھے پانا ہی میرے خواب کی تعبیر ہے
یہ وہ شعرہے جس کو پڑھ کر جی چاہا ناہید کی شاعری کو اہتمام سے پڑھا جائے
سو میں نے ناہید کے مجموعہ کلام کو پڑھنا شروع کیا اور اس کے ایسے ہی بے
شمار اشعار نے مجھے دیر تک اپنے حصار میں رکھاجنکا تعلق اس کے دل کے نہاں
خانوں سے ہے اگرچہ نئے آنے والے ہمیشہ اپنے پیش رو ؤں سے اثرات قبول کرتے
ہیں اور ناہید بھی اردو شاعری کے معتبر ناموں سے متاثر ہوئے بغیر نہیںرہ
سکیں مگر ایسا نہیں کہ اس نے ہو بہو ایک نقل کو تخلیق کا نام دے دیا ہو
کہیں پر کسی (Inspiration) کے پورے اور ادھورے عکس دکھا ئی تو دیتے ہیں مگر
غالب رنگ اس کا اپنا ہے
تمام عمر رہے ہم ہی کیوں وفا کرتے
کبھی تووہ بھی محبت کا حق ادا کرتے
گرہیں پڑی تھیں جو دل میں وہ سبھی کھل جاتیں
دل و نظر کی اگر تم نرم فضا کرتے
مرے سکوت سے جس کو رہے گلے کیا کیا
وہ میری بولتی آنکھوں سے رابطہ کرتے
تراہی نام ہے جو بس گیا ہے سانسوں میں
کسی کو تیرے سوا اور کیا خدا کرتے
کسی کی یاد کے موسم بلا رہے تھے اسے
وداع نہ کرتے اسے ہم تو اور کیا کرتے
تو جانتی ہے مجھے بھی بتا کبھی ناہید
وہ میری یاد میں کیا اب بھی ہیں جگا کرتے
اور یہی رویہ کسی اچھے اور سچے فنکار کے ارتقاء کی دلیل ہواکرتا ہے کہ وہ
تجربات کی بھٹی میں تپ کر خود کو کندن ثابت کردے اور داخلی محسوسات کے ساتھ
کائناتی مسائل کامشاہدہ بھی اس کے فن میں دکھا ئی دے مگر ناہید کی شاعری کی
پہچان ان کے ذاتی اور داخلی محسوسات کا اظہار ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری
کہیں کہیں ایک سرگوشی بن کر چاروں اور پھیل جاتی ہے
چھوڑیے بھی میرے قصۂ غم کوآپ اس کو سمجھ نہ پائیں گے
ناہید نے شعر اس وقت لکھنا شروع کئے جب ان کی ہم عمر لڑکیا ں سمندر کی
وسعتوں میں کھو جانے کی تمنا کرتیں ہیں ، گھنٹوں آئینے کے سامنے بیٹھ کر
اپنے روپ کو سنوارتی اور سجاتی ہیں اور ان میں سے بیشتر خود کو کائنات کا
مرکز اور محور تصور کرتی ہیں تب سے ناہید کی آنکھیں رت جگوں کے عذاب جھیل
رہی ہیں شبِ تیرہ میں چمکتے ہوئے تاروں نے ان کی انگلیوں کو سنہری حرو ف
لکھنا سکھائے اور ہجر کی راتیں ان پر نئے نئے اسرار کھولنے لگیں
کوئی ہجر ہے نہ وصال ہے
سبھی خواہشوں کا یہ جال ہے
دلِ غم زدہ کا یہ حال ہے
سرِ شام سے ہی نڈھال ہے
مری آ نکھ میں جو ٹھہر گیا
تری فرقتوں کا ملال ہے
مرا ہو کے بھی نہ وہ ہو سکا
یہ عجیب صورتحال ہے
مجھے آپ نے بھی برا کہا
مجھے ہے تو بس یہ ملال ہے
تمہیں صرف اوروں کی فکر ہے
کہ مرا بھی کوئی خیال ہے
تجھے کیوں نہ میری خبر ہوئی
مرا تجھ سے بس یہ سوال ہے
مرا درد حا صلِ عشق ہے
کہیں اور ایسی مثال ہے
'ناہید گذشتہ بیس برس سے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ امریکہ میں مقیم ہیں انہوں
نے اپنی تعلیم بھی وہیں سے مکمل کی ، شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا ہے انہوں
نے بتایا کہ وہ اتنا لکھ چکی ہیں کہ اس سے ان کے مزید مجموعہ کلام بھی چھپ
سکتے ہیں یقینا ایسا ہی ہو گا کیونکہ کربِ تخلیق اسی کو کہتے ہیں انہوں نے
بتایا کہ ان کے والدین کی وفات نے ان کی ذندگی کو بدل کر رکھ دیا اور ان کی
کمی نے ان کے فن پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے
کر لیا تم نے کنارا ہم سے
کس طرح ہوگا گذارا ہم سے
خود بھی دنیا سے گئے اور اس پر
لے گئے چین ہما را ہم سے
ذندگی میں ہے اندھیرا ہر سو
جب سے روٹھا وہ ستارہ ہم سے
کس سفر پر ہو کہ چاہ کر بھی اب
تم کو جائے نہ پکارا ہم سے
چاہ کر بھی نہ کبھی ہر گز ،ہاںحق ادا ہو گا تمہا را ہم سے
ایک اور غز ل جسے انہوں نے اپنے والد کے نام موسوم کیا ہے
کڑی تھی دھوپ اور وہ بے سائبان کر گیا مجھ کو
بھری دنیا تھی لیکن بے جہا ںوہ کر گیا مجھ کو
کہاں کے رنج دے کر نیم جاں وہ کر گیا مجھ کو
کہ خود میرے لئے ہی رائیگاں وہ کر گیا مجھ کو
ضرورت تھی جہاں سب سے زیادہ ساتھ کی اس کے
اسی اک موڑ پر خالی مکاں وہ کر گیا مجھ کو
مرے سارے یقیں جھوٹے، مرے سارے گماں دھوکہ
ہر اک جائے اماں میں بے اماں وہ کر گیا مجھ کو
کھلے ہیں پھول اس کی یاد کے ہر سمت آنگن میں
ؓبہاروں میں ہی کیوں وقفِ خزاںوہ کر گیا مجھ کو؟
ناہید نے اپنی کتاب کے آغاز میں لکھا ہے
یہ لفظ کچھ بھی نہیں ہیں صرف میرے کھلے ہاتھوں پر دھری ہوئی چند آہٹیں ہیں
جو پیلی دھوپ کی مانند مجھے نرغے میںلئے ہو ئے ہیں ُٰٰؒ پیلی دھوپ کی
آمدغروب کی آمد ہو تی ہے اور میںسر مئی شام کے کنارے لگی انہی آہٹوں کے
درمیان جی رہی ہوں کہیں غزل کی صورت تو کہیں نظم کا لباس پہن کر
میرے دل میں شور تیرا جب سے ہے
میرے ہونٹوں کو لگی چپ تب سے ہے
آنکھ میں جگنو چمکتے تھے کبھی
زرد اب چہرہ جا نے کب سے ہے
ہے گلہ تم سے نہ شکوہ زیست سے
تیرگی کی تو شکایت شب سے ہے
تیری آنکھیں مسکراتی ہی رہیں
ؓبس یہی دعا میری رب سے ہے
ہوگذر تیرا ادھر سے بھی کبھی
منتظر ناہید تیری کب سے ہے
'اگرچہ ناہید کی شاعری کی بنیاد ذاتی محسوسات اور داخلی کرب ہے مگر ان کا
طرزِ تحریر خاصا متاثر کن ہے یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان کی فگار انگلیاں
اپنے رائیگاں ہونے کے احساس کو کبھی بھلانہیںپاتیں اور اپنی ہار اور شکستگی
کو تسلیم نہیں کرنا چاہتیں یہی وجہ ہے کہ انکے متعدد شعر خونِ دل میں ڈوبے
ہوئے محسوس ہو تے ہیں اردوشاعری کا کلاسیکی حصہ ہے ہی وہی جسمیںدردو ہجر کا
بیان ہے اور اس درد کے بیان میں موجود سچائی ہے
رہنا تھا مجھ کو تیری نظر کے کمال میں
لیکن میں دن گزار رہی ہوں زوال میں
گھیرا ہے اسطرح مجھے وحشت کے جال نے
سب خواب میرے ڈوب گئے اس ملال میں
ْْقسمت سے راہ میں جو جزیرے ہمیں ملے
تیرے گمان میں تھے نہ میرے خیال میں
یہ ناہید کے سفر کی ابتداء ہے اور اگر انہوں نے ریاضت جاری رکھی تو ان کے
فن میں نکھار پیدا ہوگا مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنے فن کو ذندہ رکھنے کی
خاطر اسے (instnat )
بننے سے بچائیںجیسا کہ ہمارے ہاں ایک رواج چل پڑا ہے بالخصوص الفاظ کے
استعمال میں ضروری پابندیوں کا خیال رکھ کر ہی شاعری میں زندگی کی حرارت
پیدا کی جاسکتی ہے اور اسکے اثرات دیرپا ہوسکتے ہیں وگرنہ شاعری کی
کتابیںتو آئے دن چھپتی ہی رہتی ہیں لیکن ایک باحوصلہ قلمکار وہی ہوتا ہے جو
رتوں کے بار آور ہونے تک خاموشی سے آبلہ پا چلتا رہے جب بنجر زمینیں پھول
بن جاتیں ہیں تو سارا چمن خود ہی ان کی خوشبو سے مہکنے لگتا ہے اردو ادب کے
چاہنے والے ناہید سے مستقبل میں اور زیادہ خوبصورت
شاعری کی توقع کرتے ہیں
نصرت زہرا |