چکوال کی ریوڑی
نعمان منظور
سعودی عرب میں قیام کے دوران صرف ایک تلخ تجربہ ہوا،
وہ یوں کہ بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک بہت اچھے شاعر نے ایک عجیب وغریب
روایت ڈال رکھی تھی۔وہ کسی پاکستانی مشاعرے میں شرکت نہیں کرتے تھے، ہاں
اگر کوئی انڈین مشاعرہ ہوتا تو اس کی صدارت وہی فرماتے۔ہرماہ اپنے گھر پر
ایک شعری نشست کا اہتمام کرتے، جس میں شرکت کے لیے شاعر کا ’اہل زبان‘ ہونا
لازم تھا۔
ایک دن بردارِ بزرگ واصل عثمانی نے فون کیا اور فرمانے لگے
’نعمان میاں!کل اہل زبان کا مشاعرہ ہے ہماری صدارت میں تمھیں بھی چلنا ہے،
میں نے عرض کیا وہاں تو اہلِ زبان ہی پڑھیں گے میں کیا کروں گا؟
ضروری نہیں کہ آپ ہر مشاعرہ پڑھیں!یہ کہہ کر واصل
عثمانی نے فون بند کردیا۔اگلے دن میں وقت مقررہ پر واصل عثمانی کے ہم راہ
مشاعرہ گاہ پہنچ گیا۔حاضرین کے لیے فرشی نشست کا اہتمام تھا۔ واصل عثمانی
نے مشاعرہ کے اختتام پر صدارتی غزل پیش کی جس کا ایک شعر میرے حافظے میں
محفوظ ہے۔
پنجابیوں نے بات حقیقت میں سچ کہی
قائم ہمارے دم ہی سے اردو زبان ہے
اس شعرپر ہال میں سوائے میرے سبھی خاموش تھے، میں نے تین
چار مرتبہ مکرر،مکرر کہا اور یہ شعر سنا، پورے ہال میں سناٹا طاری تھا۔ اس
شعر کے بعد واصل عثمانی نے خطبہ صدارت میں فرمایا کہ آج میں صرف اس لیے
یہاں آیا ہوں کہ اہل زبان کو بتا سکوں کہ پاکستان میں جو شاعری پنجاب میں
ہورہی ہے اہل زبان اس کے جواب میں کیا فرماتے ہیں؟
اس ساری تمہیدباندھنے کا مقصد یہ تھا کہ میں بیس پچیس برس
ایوب خاور کو اہل زبان ہی سمجھتا رہا۔ ان کے رنگ، روپ نے مجھے ہمیشہ مغالطے
ہی میں رکھا، میں نے کبھی ان کے منہ سے پنجابی نہیں سنی، اگر حالت ِخواب میں
پنجابی بولتے ہوں تو ابھی تک اس کی بھی رسید وصول نہیں ہوسکی۔
یہ تو تین برس پہلے ایوب خاور نے باتوں باتوں میں
بتایا کہ ان کا تعلق چکوال سے ہے۔میں حیران رہ گیا اور ابھی تک حیرانی میں
ہوں، اب سمجھ آیا کہ ان کا قد واقعی پوٹھوہار کے اونچے اونچے پہاڑوں کی طرح
اورگفتگو میں مٹھاس چکوال کی ریوڑی کی طرح ہے۔
چکوال گڑکی ریوڑی کے لیے بہت مشہور ہے اس ریوڑی میں
سفید تل گڑاور عرقِ گلاب کا استعمال ہوتا ہے۔منہ میں ڈالیں تو بولنے کو جی
نہیں چاہتا،یہی حال ایوب خاورکا ہے،اوّل تو بولتے بہت کم ہیں اگر بولیں تو
دل کرتا ہے یہ کہتے جائیں اور ہم سنتے جائیں۔ آنکھوں کے اوپر ماتھے پر عینک
لگا کر اس طرح اگلے بندے کو غور سے دیکھتے ہیں کہ جی خواہ مخواہ ڈھانپ لینا
چاہتا ہے۔
ایوب خاورکا تعلق چکوال کے مشہور فوجی خاندان سے ہے، ان کے
پردادا،دادا اوروالد انگریزفوج میں رہے۔ان کے والد صاحب نے انگریزفوج کی
طرف سے دوسری جنگِ عظیم میں بھی حصہ لیاتھا۔فوجیوں کی خصوصی کوشش ہوتی ہے
کہ ان کے گھر میں ڈسپلن کی پابندی کی جائے۔لہٰذا ڈسپلن اور محنت ایوب خاور
کے خون میں شامل ہے۔اپنے نامساعد گھریلو حالات کی وجہ سے ایوب خاور پانچویں
کلاس تک اسکول جانے کے علاوہ مزدوری بھی کرتے رہے تاکہ گھر کے اخراجات میں
ہاتھ بٹایا جاسکے۔پانچ جماعتیں پاس کرنے کے بعد ایوب خاورکراچی شفٹ ہوگئے
اور ماسٹرز کی ڈگری کے ساتھ ساتھ نکاح نامہ بھی یہیں سے حاصل کیا
فرسٹ ایئرہی سے انھیں ریڈیو پرکام کرنے کاشوق تھا
ایک دن بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کراچی جا پہنچے اور وہاں آڈیشن دے
ڈالا۔سیکڑوں کی تعداد میں آئے ہوئے امیدواروں میں سے ایوب خاور کو Best
Voice انعام ملا۔اوراگلے سال پھرمل گیا۔وہ تو ملکہ مادام نورجہاں کی خوش
قسمتی تھی کہ ایوب خاور نے گانے نہیں گائے اگر انھیں گانے کاشوق ہوتا تو آج
نورجہاں کی جگہ ان کے ریکارڈ بج رہے ہوتے۔
مجھے ایک واقعہ یاد ہے کہ قریباً پندرہ برس قبل ایوب
خاورکی شاعری کا مجموعہ ’’گل موسم خزاں‘‘ چھپ کے آیا تو ان کے دوستوں نے
تقریبِ پزیرائی سے پہلے ایک نجی نشست کا اہتمام کرڈالا۔ایوب خاورسے کہا کہ
چند دوستوں کے ساتھ تمھاری شاعری پر بات کریں گے۔دوست اکٹھے ہوئے تو گپ شپ
شروع ہوگئی،اتنے میں کھانے کابگل بج گیا،کھانے کے بعد ایوب خاور دل ہی دل
میں اپنی شاعری پر ہونے والی تنقید اورتعریف کے جواب گھڑتے رہے۔کھانا بھی
ختم ہوگیا اور پھر چائے بھی لیکن دوستوں نے ایوب خاور کی شاعری پر بات نہیں
کی،اس بات کا ایوب خاورکو بہت رنج ہے جس کا اظہار ویسے تو انھوں نے آج تک
نہیں کیا لیکن میرے پرزور اصرار پر بتاہی دیا کہ ان کی زندگی میں اس شام کا
دُکھ زہر کی طرح شامل ہے۔میرے بہت اصرار پر بھی انھوں نے مجھے ان دوستوں کے
نام نہیں بتائے۔
البتہ کہنے لگے نعمان!دوستوں کی محبتوں کے سامنے
چھوٹی چھوٹی رنجشوں کو بھلا دینا چاہیے۔
پھر آپ نے یہ بات مجھے کیوں بتائی! تم نے پوچھا ہی ایسے گھما پھرا کے ،میں نے ساری عمر دوستیاں
نبھائی ہیں ان کے بدلے کبھی کسی سے شکایت نہیں کی، محبتوں میں شکایت نہیں
کرتے۔
میں ایک دن فنون1972ء کا شمارہ دیکھ رہاتھا اس شمارے
میں سقوط ِڈھاکہ پر ایوب خاورکی ایک بہت خوب صورت نظم شامل تھی! اس کا مطلب
یہ ہے کہ ایوب خاور سینئر شعرا کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں لیکن میں نے آج
تک ایوب خاور کی شاعری کے بارے میں کبھی کسی کو گفتگو کرتے نہیں سنا،
کتابوں پر تبصرے یا فلیپ لکھ دینا اور بات ہے اور شاعری کی محفل میں کسی
شاعر کی اچھی اورخوب صورت شاعری پر بات کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔میرا
خیال ہے کہ آج کل ہمارے دل گردے ہی خراب ہیں جو ہم کسی کی تعریف میں ہمیشہ
ڈنڈی مارجاتے ہیں بحیثیت پروڈیوسر ایوب خاور نے بے شمارمشاعرے ریکارڈ کیے،
اور اپنے تمام دوستوں کو پی ٹی وی کے مشاعروں میں شامل کیا۔ پی ٹی وی سے
باہر منعقد ہونے والے ہزاروں مشاعروں میں ایوب خاور نے کبھی کسی سے یہ نہیں
کہا کہ میں بھی شاعر ہوں۔ میرے نزدیک ایک بڑے آدمی کی یہی پہچان اور پرکھ
ہوتی ہے اس پر ایوب خاور سو فیصد پورے اترتے ہیں۔
ایوب خاور دوستوں کے معاملے میں بڑے حساس ہیں، کسی
کی برائی نہیں کرتے۔ان کا دوست اگر ڈراما لکھ لے تو اسے پروڈیوس نہیں کرتے
کہ اگر ڈراما فلاپ ہوگیا تو دوست ناراض نہ ہوجائے۔اس پر بھی ان کے کچھ
قریبی دوست ان سے اکثر ناراض رہتے ہیں۔
میرے ساتھ آج تک تو ان کا رویہ بڑا ہی دوستانہ اور بزرگانہ
رہا ہے لیکن مستقبل میں اندیشہ ہائے دور دراز مجھے دہلائے رکھتا ہے کیوں
کہ میں بھی ایک بڑا دھانسو سا ڈراما لکھ رہا ہوں۔ |