|
پروین شیر
Alzheimers)نسیاں ماں کی یادداشت کھونے پ بے بسی کی رضائی میں منہ کو چھپائےہوئے زہن کے گھپ اندھرے کی کالی گھپا میں بھٹکتی ہوئی جیسے خود سے بھی بچتی بچاتی ہوئی چیختی ہے کہ کوئی بتائے اسے اپنے ہاتھوں سے سر کو سنبھالے ہوئے کون ہےوہ؟ کہاں ہے؟یہ اندھی اندھیری گپھا کیا یہی اس کی یادداشتوں کے محل کا باقی ہے کھنڈر اپنی آہ وبکا ،اپنی سینہ زنی،سوگ کےماتمی شور میں ڈوبتی اور ابھرتی ہوئی سسکیوں میں ہے ماتم کناں زندگی کا مرتب ورق پرزہ پرزہ بکھر کر اڑا ہاتھ سے سارے الفاذ اک دوسرے سے جدا ہوگئے کوئی معنی و مفہوم بنتا نہیں!۔ زنگ آلود تالے سے جکڑے ہوئے زہن کے در پہ دستک کا کچھ زور چلتا نہیں یاد کے پرزہ پرزہ ورق سب اڑا کر کہیں لے گئیں آندھیاں سارے دروازے جو بند ہیں اب کہاں کھل سکیں گے گم ہوئیں چابیاں اے خدا تو بتا کوئی چارہ نہیں کوئی چارہ نہیں کوئی چارہ نہیں |