Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

ڈاکٹر راحت اندوری

ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے

 جان ہوتی تو میری جان لٹاتے جاتے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے

 عمر گذری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

 رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ

 ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے

 مجھ میں رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید

 لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے

 اب کہ مایوس ہوا یاروں کو رخصت کرکے

 جا ہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے

 ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہونگے

 کم سے کم راہ کا پتھر تو ہٹاتے جاتے

 .........................

اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں

 میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں

بتوںسےمجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے

 تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں

 میں کروٹوں کے نئے زاویے لکہوں شب بھر

 یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں

 ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی

 کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں

 اس آدمی کو بس اک دھن سوار رہتی ہے

 بہت حسیں ہے یہ دنیا اسے خراب کروں

 یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے

 کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE