|
ڈاکٹر راحت اندوری ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے جان ہوتی تو میری جان لٹاتے جاتے اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے عمر گذری ہے ترے شہر میں آتے جاتے رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے مجھ میں رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے اب کہ مایوس ہوا یاروں کو رخصت کرکے جا ہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہونگے کم سے کم راہ کا پتھر تو ہٹاتے جاتے ......................... اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں بتوںسےمجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں میں کروٹوں کے نئے زاویے لکہوں شب بھر یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں اس آدمی کو بس اک دھن سوار رہتی ہے بہت حسیں ہے یہ دنیا اسے خراب کروں یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں |