Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 


 فرخندہ رضوی کے افسانوں ،سچی کہانیوں کے مجموعے،،پھر وہ صبح کہاں ،،کی رسم اجرأ


 ۲۰ نومبر ہفتے کی شام پاکستانی کمیونٹی سنٹر ریڈنگ میں فرخندہ رضوی کے افسانوں ،اور سچی کہانیوں کے مجموعے ٬پھر وہ صبح کہاں ،کی رسم اجرأ کے سلسلے میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ہال کو کتاب کے سرَ ورق کے رنگوں میں ڈھالا گیا تھا ۔جگہ جگہ خوبصورت پوسٹرچسپاں کیے گے تھے۔اسٹیج پر رکھی کرسیوں کے پیچھے فرخندہ رضوی کی تینوں کتابوں کے سرورق کے رنگ سے سجے پردے اس ہال کواور بہت خوبصورت بنا رہے تھے ۔
کتاب کی تقریب شروع ہونے سے پہلے مہمانوں کو بوریت سے بچانے کے لیے اچھی موسیقی کا انتظام بھی کیا گیا تھا ۔گلوگار راہی اور سعیدہ مغل نے اپنی گائیگی سے آئے ہوئے مہمانوں کو لطف اندوز کیا ۔چائے کے ساتھ ساتھ بہت سے لوازمات کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری رہا ۔سات بجے بقاعدہ تقریب کا آغاز ہوا۔س سے پہلے سعیدہ مغل نے فرخندہ رضوی کی شخصیت پر اظہار خیال کیا اور تقریب کو آگے بڑھانے کے لیے مائیک بانو ارشد صاحبہ کے حوالے کر دیا ۔
 پھر وہ صبح کہاں،کی رسم اجرأ کی اس تقریب کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے بانو ارشد صاحبہ نے تمام مہمانوں کو باری باری اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔صدارت کے فرائض انجام دینے کے لیے ساحر شیوی صاحب ،مہمان ِ خصوصی محترمہ نور جہاں نوری صاحبہ،اظہار خیال کے لیے محترم سالم جعفری صاحب،نرگس جمال صاحبہ،فرحت خان صاحبہ،سائرہ بتول صاحبہ،اور اشفاق احمد صاحب کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔۔
ان سب کے بعد بانو ارشد صاحبہ نے اس تقریب کی میزبان اور کتاب کی مصنفہ فرخندہ رضوی کو بلایا جو ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی تالیوں کی کونج میں اسٹیج پر تشریف لائیں ۔جیسا کہ بتایا گیا کہ تقریب کی نظامت معروف افسانہ نگار،ادیب ،شاعرہ اور کالم نگار بانو ارشدکے سپرد تھی۔انہوں نے سب سے پہلے فرخندہ رضوی کے اس افسانوں ،اور سچی کہانیوں کے مجموعے ٬پھر وہ صبح کہاں ،کو اردو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ قرار دیا ۔اس کے ادبی سفر اور شخصیت پر روشنی ڈالی،انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ کی مٹی یقیناً زرخیز ہے جہاں علامہ اقبال۔اور فیض احمد فیض جیسے شعرأ نے جنم لیا۔اسی شہر سے ایک اور شخصیت بلکہ اسی مٹی سے ایک پودہ پروان چڑھا جس کا نام فرخندہ رضوی ہے۔انہوں نے فرخندہ رضوی کی تینوں کتابوں کا ذکر دونوں شعری مجموعوں اور تیسرے افسانوں مجموعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فرخندہ رضوی کا ایک اپنا اور منفرد انداز ہے ،واقعات،مشاہدات،تجربات اور مطالعے جس کی عکاسی اور ترجمانی ان کے افسانوں کی مظہر ہے۔فرخندہ کی زبان سادہ،سلجھی ہوئی،ان کی تمام کہانیوں کو پڑھو تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک حقیت ہے۔فرخندہ نے اپنے تجربات سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔بانو ارشد صاحبہ نے اپنے اظہار خیال میں فیض احمد فیض کے ایک شعر کی صورت اپنے دل کی عکاسی کچھ یوں کی ۔
 کیوں نا جہاں کا غم اپنا لیں
 بعد میں سب تدبیریں سوچیں گے۔
 انہوں نے فرخندی رضوی کے کچھ افسانوں کا ذکر بھی کیا ۔اپنے خیال کو سمیٹتے ہوئے فرخندہ رضوی کا ایک شعر پڑھا ۔
 اپنے بعد انہوں نے ریڈنگ کی شاعرہ فرحت خان کو دعوت اظہار خیال دی۔پہلے اس کا مختصر تعارف بھی کروایا ۔فرحت خان صاحبہ نے بڑی فراخدلی سے سب سے پہلے فرخندہ رضوی کو اس افسانوی مجموعے پھر وہ صبح کہاں ،کی مبارک باد پیش کی ۔پھر اس کی شخصیت میں چند لفظ بہت محبت سے ادا کیے۔کہ فرخندہ رضوی معاشرے کی عکاسی روزمرہ کے واقعات کو قلم بند کرتی ہیںکسی بناوٹ یا ملاوٹ کے بغیرجوں کا توں بیان کرتی ہی چلی جاتی ہیں ۔جس طرح وہ سب سے ملتی ہیں وہی انداز تحریر افسانوں بھی موجود ہے ۔آخر میں اپنے لکھے وہ اشعار فرخندہ رضوی کی نذر کیے ۔جلتے ہوئے سینے ہیں مگر آنکھوں میں پانی
 فرخندہ کرتی ہیں کچھ ایسی بیاں کہانی
 انداز بیاں ایسا ہے کہ کھو جاتا ہے
 تحریر ہی کچھ ایسی ہے کچھ ایسی روانی
 فرحت کے بعد اظہار خیال کا موقعہ سائرہ بتول کو ملا ۔اس نے کہا کہ لکھنے کا سلیقہ اور کہنے کا طریقہ عطاِ خداوندی ہے۔انہوں نے کتاب میں لکھی ہوئی خالد یوسف صاحب کی رائے سے اتفاق کیا ،محبت ،چاہت ،اور الفت پر لکھنے والے تو اکثر ہی قلم اٹھاتے رہے مگرفرخندہ رضوی نے کسی ایک موزوں سے خود کو محدود نہیں کیا ۔ایک افسانے مقدر کی دہلیز کا ذکر بے ساختگی سے کیا ۔جس میں ایک دیار غیر میں بسنے والی لڑکی اپنے ہی دیس سے آئے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں ایک بار نہیں دو بار برباد ہوئی۔اس نے کہا کہ پھر وہ صبح کہاں ،علم و ادب کے سفر میں ایک نیا سنگ میل ہے۔سائرہ بتول کے بعد نرگس جمال صاحبہ تشریف لائیں ۔جو خود بھی ایک اچھی شاعرہ ،صحافی،کالم نگار ہیں ۔اس نے بھی کتاب کے کچھ افسانوں کو ہائی لائٹ کیا ،عورت کی ناانصافی،بیٹوں کی ماں سے بے رُخی برتنا ،جیسے افسانوں کا ذکر کیا ۔معصوم نگاہیں ،ریت پہ قدموں کے نشان،ماں کی محبت،خاص اس کی پسند تھے۔فرخندہ رضوی کی شخصیت پر بھی کچھ روشنی ڈالی۔اس کے بعد مرزا امجد صاحب جو کسی وجہ سے تشریف نہیں لا سکے تھے ان کے لفظوں کو آواز دینے اشفاق احمد صاحب کو اسیٹج پر بلایا گیا۔انہوں نے امجد مرزا صاحب کا لکھا مضمون بہت خوبصورت انداز میں پڑھا ۔مرزا امجد صاحب نے ایک جگہ اپنے اس مضمون میں لکھا کہ فرخندی رضوی نے معاشرے کو بری طرح جھنجھوڑا ہے۔اور سماج کی ظالمانہ رسموں کو بے نقاب کیا ہے۔اپنی کہانیوں کو محض ایک خیالی اور موہوم جنت گُم گشتہ میں وقت برباد کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا۔۔بلکہ ایک بیدار ضمیر رکھنے والی فنکارہ کی طرح سماجی لعنتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے معاشرے کی دُکھتی رگوں پر ہاتھ رکھا ہے ۔۔اسی طرح انہوں نے پھروہ صبح کہاں ،کے افسانوں کے مجموعے میں لکھے بہت سے افسانوں کا ذکر بھی کیا ۔کتاب کی مبارک کے ساتھ اپنی بات کا اختتام کیا ۔اسی دوران بانو ارشد صاحبہ نے عقیل دانش صاحب کے دو اشعار جو انہوں نے بذریعہ پوسٹ ارسال کیے تھے کسی وجہ سے تقریب میںشامل نہ ہو سکے۔۔اشعار کچھ یوں تھے۔۔
 فرخندہ ، رخشندہ ہے دیوان ادب میں
 فنکار ہے فن کو جگہ دیتی رہیں گی
 ہر لفظ سجائیں گی محبت کے رنگ سے
 ہر رنگ کو رنگ حنا دیتی رہیں گی
ان اشعار کی بدولت ان کی موجودگی کا احساس ہوا ۔۔ان کے بعد محترم سالم جعفری صاحب کو مائیک پیش کیا ۔انہوں نے بہت مختصر اور جامے الفاظ میں فرخندہ رضوی کی شخصیت اور قلم کی طاقت پر اظہار خیال کیا ۔دنیا ادب میں درخشاں ستارے کی طرح چمکنے کی بے شمار دعاؤں سے نوازہ۔اور پھر وہ صبح کہاں ،کے مجموعے کو ایک خوبصورت کاوش کہا ۔کچھ افسانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قاری جب ایک افسانہ شروع کرتا ہے تو آخر تک پڑھے بغیر اٹھتا نہیں ۔یہی ایک اچھے لکھاری کی پہچان ہے۔
 بانو ارشد صاحبہ نے کہا کہ اسی کتاب میں شاعر ایوب سنگھیا کی رائے کے وہ لفظ ٬٬کہ لفظوں کی سنگ تراشی کا ہنر ہے اس میں ،،میں حقیقت کا رنگ بھرنے فرخندی کو دعوت دیتی ہوں آئیں اور ثابت کریں ۔اس بات سے محفل تالیوں سے گونج اُٹھی ۔فرخندہ رضوی نے مائیک سنبھالا تقریب کی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی کتاب ٬پھر وہ صبح کہاں ،سے ایک افسانہ منتخب کیا ،معصوم نگاہیں ،ہر لفظ محفل میں بیٹھے سامعین کے دل میں اترتا ہی گیا۔تالیوں کی گونج میں خوب داد وصول کی۔ایک غزل کی بھی فرمائش کی گئی فرخندہ کے ایک غزل کے چند اشعار بھی سنائے۔اشعار کچھ یوں تھے۔کیا مجھ کو ہو گیا ہے کیا ہو گئی ہوں میں
 خود اپنے آپ سے ہی خفا ہو گئی ہوں میں
 اب سوچنا ہی کیا کہ میرا قافلہ بھی تھا
 جب قافلے سے خود ہی جدا ہو گئی ہوں میں
 غزل ختم ہوتے ہی اس کی بہن عظمت پرویز نے خوبصورت پھولوں کا گلدستہ پیش کیا ۔اس کے بعد اس کے بھانجے کے بچوں نے بھی پھول پیش کئے۔بھانجی مرینہ پرویز ،بیٹی سونیا رضوی ،بیٹے آکاش رضوی نے اسٹیج پر آکر خوبصورت پھول پیش کیے۔فرخندہ رضوی کے بہنوئی نے پھولوںکے ساتھ ساتھ چند لفظ اس کی شخصیت اور کتاب کی مبارک پیش کی ۔پھولوں سے بھرا اسٹیج ،چہروں کی چمکتی خوشی اس بات کا ثبوت تھی۔کہ ہر کوئی اس تقریب سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔۔اس کے بعد بہت سی تالیوں میں محترمہ نور جہاں نوری صاحبہ کو کلام پڑھنے کی دعوت دی گئی۔انہوں نے اپنی خوبصورت آواز میں منظوم پڑھا ۔ہال تالیوں سے گونج اُٹھا ۔نور جہان نوری نے اپنے ہاتھوں سے فریم شدہ منظوم فرخندہ رضوی کو پیش کیا ۔۔آخر میں خطبہ صدارت کے لئے محترم ساحر شیوی صاحب تشریف لائے ۔انہوں نے فرخندہ رضوی کو نذرانہ عقیدت پیش کیا ۔انہوں نے کہا کہ فرخندہ رضوی یوں تو شاعرہ ہیں مگر ان کا فن افسانہ نگاری میں کھل کر سامنے آیا ہے ۔کہانی یا افسانہ لکھنا بھی ہر صنف کی طرح آسان نہیں ہے ۔کہانی سوچنا آسان مگر اسے لفظوں کا پیر ہین دینا ایک مشکل کام ہے۔جب تک افسانہ رواں نہ ہو،کردار جاندار نہ ہوں ،واقعات مربوط نہ ہوں ،اور الفاط سہل اور برجستہ نہ ہوں تو کہانی یاافسانہ پھر کہانی یا افسانہ نہیں بنتا ۔۔بہت سی باتوں کے ساتھ انہوں نے اپنا لکھا منظوم پڑھا ۔دعا دی کہ اس کتاب کی اپنی ایک پہچان ہو ۔فرخندہ کے ادبی سفر میں کامیاب او کامران سفر پر مبارک پیش کی ۔اس یقین کے ساتھ کہ ان کا قلم اسی طرح رواں رہے گا ۔۔
 آخر میں پاکستانی کمیونٹی سنٹر کے چئیر میں میاں سلیم کو مائیک دیا گیا انہوں نے تقریب میں آئے ہوئے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔اور فرخندہ رضوی کو کتاب کی مبارک دی۔کہا کہ ریڈنگ کے لوگوں کو آپ پر فخر ہے۔۔اس کے بعد فرخندہ رضوی نے آئے ہوئے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔ اور اپنی اردو سوسا ہیٹی کے صدر جناب خضر مفتی صاحب کا شکریہ ادا کیا جن کی ہمیشہ حوصلہ افزائی ان کے ساتھ رہی ۔اور کہا کہ جن مہربانوں ،دوستوں نے میرے دعوت نامے قبول کئے ان کا بھی شکریہ ۔۔بانوارشد صاحبہ جنہوں نے نظامت کے ساتھ ساتھ حاضریں کو تادمِ آخر اپنی باتوں سے بھی محظوظ کیے رکھا ۔ان کا شکریہ ادا کیا ۔اس طرح اس تقریب کا ہنستے مسکراتے اختتام ہوا ۔سب مہمانوں کو دلکش کھانے سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا گیا ۔اس تقریب کی خوشی مہمانوں ومیزبانوں کے شہروں پر براجمان تھی جسے بہت سے کیمروں میں قید کر لیا گیا ۔۔۔۔۔

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE