|
رومانہ رومی کراچی
غزلیں
ہے کوئی زیست
کی راہوں میں مہرباں لمحہ
جو ترے عشق میں
کر دے مجھے حیراں لمحہ
پل میں برسوں
کے تعلق کو بجھانے والے
جم گیا ہے وہی
قسمت میں پریشاں لمحہ
شام کس طرح
گزرتی ہے نہ پوچھو ہم سے
کیسے کٹتا ہے
مضافات میں ویراں لمحہ
وصل کی رات
ہواؤں نے کیا رقص بہت
آج بھی یاد ہے
مجھ کو وہ غزل خواں لمحہ
وصل کہتے ہیں
کسے اس کو بھلا کیا معلوم
جس کی تقدیر
میں لکھا ہو گریزاں لمحہ
جانے کس جرم کی
ملتی ہے سزا رومی ہمیں
زندگی ہے یہ
ہماری یا پشیماں لمحہ
رومانہ
رومی کرا چی
کچھ نہ کچھ
گیسوئے ارمان سنور جائیں گے
چند لمحے جو
ترے ساتھ گزر جائیں گے
آس رکھنا نہ
کبھی ریت کے ٹیلوں سے تم
یہ تو اِک روز
ہواؤں سے بکھر جائیں گے
میرے بپھرے
ہوئے جذبات کے تیور مت دیکھ
ابھی سیلابی
ہیں دریا یہ اُتر جائیں گے
کوچۂ عشق میں
جو لوگ نہ سُدھرے اب تک
کون کہتا ہے کہ
وہ لوگ سُدھر جائیں گے
بند تو باندھ
لوں جذبات کے دریا پہ مگر
ضبطِ غم سے مرے
اعصاب بکھر جائیں گے
ایک حد تک ہی
تو رہ سکتی ہوں میں مُہر بہ لب
دل میں اُٹھیں
گے جو طوفان کدھر جائیں گے
ہم سے ناشادِ
محبت غمِ حسرت کے شکار
زندگی تیری
تمنا ہی میں مر جائیں گے
آج زخموں کو
اگر سی نہ سکو گی رومی
کل جو پروائی
چلے گی تو اُبھر جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمِ حیات پہ پوری کتاب لکھوں گی
چھپے ہوئے ہیں جو اب تک وہ باب
لکھو ں گی
وہ ایک شخص کہ جس نے سکھا دیا
جینا
میں اُس کے نام سے پہلے جناب
لکھوں گی
کئے ہیں پاؤں مر ے چھلنی
جس بھی کا نٹے نے
بڑے خلوص سے اُس کو گلاب لکھوں
گی
ہر ایک رنگ میں خود کو جو رنگ
لیتے ہیں
میں ہر ورق پہ انھیں کامیاب
لکھوں گی
پڑ ے ہیں آج بھی یہ لوگ خوابِ
غفلت میں
میں ایسی قوم کو تو لاجواب
لکھوں گی
رکھوں گی فاصلہ بھی درمیاں میں
ملنے پر
میں اپنے لطفِ ستم کا حساب
لکھوں گی
وفا سرشت ہے کوئی ہوا کرے رومی
ملے جو اس کی طرف سے عذاب لکھوں
گی
رومانہ رومی کراچی
کبھی پرکھو تو لفظوں کو معانی
سے نکل کر
ذرا سوچو کبھی تم بھی کہانی سے
نکل کر
کرن اُمید کی من کا اندھیرا بھی
مٹا دے
دیا کوئی جلائے بدگمانی سے نکل
کر
ہر اِک منظر مر ی نظرو ں میں ہے
بے رنگ سا اب
کہاں خوش ہوں کسی کی مہربانی سے
نکل کر
گریزاں ہے جو میری ذات سے اس سے
یہ کہنا
کبھی دیکھے ذرا وہ خوش کمانی سے
نکل کر
تھکا ڈالا ہے ہم کو بھی غموں کی
میزبانی نے
ذرا غم بھی تو دیکھیں میزبانی
سے نکل کر
میں ساری عمر کی محنت کو کیسے
رائیگاں لکھ دوں
کہاں جاؤں تمھاری مہربانی سے
نکل کر
تمھیں محسوس کیسے ہو کسی کا درد
رومی
کبھی دیکھو تو اپنی راج دھانی
سے نکل کر
................................................
میں تیری انا کی قیدی ہوں
عورت ہوں سدا کی قیدی ہوں اُڑنے کو ہوں میں تیار مگر صیاد فضا کی قیدی ہوں مر جاتی زمانے کے ہاتھوں پر ماں کی دُعا کی قیدی ہوں جو فون پہ اکثر سنتی ہوں اُس ایک صدا کی قیدی ہوں جُھک جاؤں تو تاج و تخت ملے لیکن میں انا کی قیدی ہوں تم جوروستم کے رستے پر! میں طرزِ وفا کی قیدی ہوں اِک حبس مجھے ہے گھیرے ہوئے میں رومی ہوا کی قیدی ہوں رومانہ رومی کراچی وقت سے پہلے ہو ئی شام گلہ کس سے کروں
رہ گئے کتنے
مرے کام،گلہ کس سے کر وں
اپنی ناکام تمنا کا سبب میں تو نہ تھی آگیا مجھ پہ ہی الزام، گلہ کس سے کر وں دل ہراساں ہے بہت دیکھ کے انجامِ وفا اے مری حسرتِ ناکام، گلہ کس سے کر وں اب تو وہ مجھ سے ملاتا ہی نہیں اپنی نظر اب چھلکتے ہی نہیں جام، گلہ کس سے کروں میرے قدموں نے مرا ساتھ کہاں چھوڑ دیا منزلِ شوق تھی دوگام، گلہ کس سے کروں ہجر کا روگ بھی رسوائی بھی پائی رومی پوچھ مت عشق کا انجام، گلہ کس سے کروں |