میر و غالب
کے شہر میں چار دن
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں
پاکستانی شعرا کے اعزاز میں ایک مشاعرہ
دہلی میں
فیڈریشن آف سارک کے زیر اہتمام سارک رائٹرز اینڈ
لٹر یچرفیسٹول
سارک
را ئٹرز کانفر نس کا دعوت نامہ تو ہمیں پانچ ما ہ
قبل ملا تھا جو ڈھا کہ میں 31 جنوری کو منعقد ہونی تھی مگر یہ کا نفرنس بہ
وجوہ ملتوی ہو گئی۔
اور
پھر سارک رائٹرز اینڈ لٹر یچرفیسٹول کے نام سے پچھلے ماہ بھارت کے شہر دہلی
میں منعقد ہوئی۔یہ تین روزہ فیسٹول 26 تا 28 مارچ تک جاری رہا۔پاکستان سے
جانے والے وفد میں ادب کے حوالے سے ہم اور مبین مرزا کراچی سے، فیصل آباد
سے طاہرہ اقبال،اور پنجابی زبان کی شاعرہ سعیدہ بانو ریشم، لاہور سے ڈاکٹر
اختر حسین اختر، ا قتدار جاویداور اسلام آباد سے عا صم بٹ اور ابدال بیلا
صاحب شامل تھے
.۔26مارچ
کو انڈیا انٹر نیشنل سینٹر کے وسیع و عریض ہال میں
کانفرنس کا افتتاح ہوا۔ہم جب وہاں داخل ہوئے تو آٹھ ممالک کے ادیب
شاعر ،دانشور اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے اہم نام ستاروں کی طرح
جگمگا رہے تھے۔اسٹیج پر بھارت کے ممتاز شاعر گلزار اپنی میٹھی مسکراہٹ کے
ساتھ موجود تھے۔ کچھ پاکستانی مہمانِ خاص بھی اسٹیج کی رونق میں اضافے کا
باعث تھے جن میںسرمد صہبائی، حامد میر
اور انوائرمنٹ کی وزیر نو شین سعید صاحبہ شامل تھیں۔
کانفرنس کی روحِ رواں اجیت کور مہمانوں کا خیر مقدم کر رہی تھیںکسی قسم کی
اجنبیت کے احساس کے بغیر،گھر کے ایک فرد کی طرح
کانگریس کے ممبر ڈاکٹر کرن سنگھ جو انڈین پارلیمنٹ کے ایک اہم رکن بھی ہیں،
نے کانفرنس کا افتتاح کیا۔ آغاز میں پاکستان کی طرف سے
سرمد صہبائی نے اور بھا رت کی طرف سے گلزار نے نظم پڑھی۔اجیت کور کہہ رہی
تھیں کہ، جب چڑیا اپنا گھو نسلہ بھارت میں بناتی ہے اور
دانہ دنکا پاکستان سے لے کر آتی ہے تو آخر ادیب آسانی سے کیوں نہیں آ ، جا
سکتے ۔ حامد میر کو ان کی میڈیا پر فارمنس پر اور بھارت کے بابا سیوک سنگھ
کو ایک لاکھ درخت لگانے پرایوارڈ ز دئے گئے۔نو جوان شاعرہ کا ایوارڈ بنگلہ
دیش کی روبینہ حق نے حاصل کیا۔
ابتدائی سیشن میں کچھ مقالے انوائرمنٹ ، ادب اور کلچرکے حوالے سے پڑھے
گئے۔لنچ کے وقفے کے بعدشام ہائی ٹی کے وقفے تک
مشاعرہ تھاجس مین مختلف ممالک سے آنے والے شعرا نے اپنی نظمیں پیش کیںدو
نظمیں سنانے کی اجازت تھی اور زیادہ تر کلام انگلش میں
ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا تھامگر ہم نے اور طاہرہ نے بھی طے کر لیا تھا کہ
ہم اپنا کلام اور طاہرہ اقبال اپنا افسانہ اردو میں ہی پڑھیں گی جو
ہماری قومی زبان ہے، سو یہی ہوا کہ اگلے دن جب ہماری باری آئی تو ہم نے پہلے
غزل اور پھر اپنی نظم اردو میں ہی پیش کیاور پھر ہماری حیرانی کی انتہا نہ
رہی جب چائے کے وقفے میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان کے مندو بین نے
آکر ہماری نظم کو سراہا اور بتایا کہ اگر چہ
وہ اردو بول نہیں سکتے مگر سمجھ لیتے ہیں۔
یہ تین روزہ
کانفرنس تھی ۔آخری دن سب ایک دوسرے کو جان گئے تھے ۔ اجنبیت ختم ہو چلی
تھی۔اس روز بھا رت کے مشہور نقاد
زبیر رضوی ، افسانہ نگار جو گندر پال، ستیہ پال اور شہپر رسول صاحب سے ملاقات
رہی۔ملٹی میڈیا پریز نٹیشن میں پاکستان کی طرف سے نا ئلہ
حسین نے بڑی محنت سے پرو جیکٹ بنایا تھا۔شام کو پاکستانی گلوکار شفقت علی خاں
نے خوب رنگ جمایا۔
چوتھے دن جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پاکستانی شعرا کے اعزاز میں ایک
مشاعرہ تھایہ مشاعرہ ہمیں تا زند گی یاد رہے گا کیوں کہ
رات کے وقت مشاعرہ گاہ میں دو ڈھائی سو طلبا و طالبات کا جمع ہونا اور داد
و تحسین کے ساتھ کلام سننابڑی بات ہے۔آصف نے ہمیں بتایا کہ یہاں بوائز اور
گر لز ہوسٹل ہیںاور ساری رات یو نہی چہل پہل رہتی ہے۔
۔30تاریخ کو ہماری واپسی تھی۔
میر وغالب کی سر زمیں پراس شہر میں، جو عالم میں انتخاب تھا، اپنی زندگی کے
چار بے حد مصروف دن
لیکن انتہائی خوب صورت دن گزارکر آخر کار ہم نے پاکستان کی راہ لی، جس کی
یاد اب ہمیں شدت سے آنے لگی تھی۔
|