Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

علی پور کا بیلی


اور شہروں میں اک عمر گذری پھر بھی تنہا تنہا ہیں
آج وہ یاد آتے ہیں لمحے نکلے تھے جب گاوں سے
ھجرت ، نقل مکانی یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی ازل سے انسان کو ودیعت کر دی گئی.سب سے پہلی جبری ہجرت تخلیق کائنات کے فورا بعد ھوئی جب آدم نے اپنے خالق کی حکم عدولی کی جس پر آدم کو حکم دیا گیا کہ "اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹہرنا اور وہیں گذر بسر کرنا ہے."
ھجرت دنیاوی ایک بار پھر وقوع پذیر ہوئی جب منکرین خدا کفار مکہ نی محبوب خداوندی پر عرصہ حیات تنگ کر دیا پس میشت خداوندی یہی تھی کہ محبوب خدا، مکہ سے ہجرت کر جائیں سو مکہ سے حبشہ اور آخر میں مکہ سے مدینہ کے سفر مین ظہور پایا.
ھجرت کرنا ہر روح میں عام طور پر اور مسلمانوں میں خاص طور پر ودیعت شدہ ہے. تقسیم ہند کے اعلان کےنتیجہ میں لاکھوں افراد کی نقل مکانی نے ھجرت کو نیا مفہوم بخشا. اس خون آلود ھجرت نے اردو نظم اور نثر کو درد کی کیفیات سے آشنا کیا.
اردو شاعری ، انسان کے عقل و شعور کے اظہار میں سے ایک ہے. ھجرت کا یہ درد آج بھی اردو شاعری میں موضوع سخن ہے.
پنجاب کےشہر مظفرگڑھ کے مضافاتی علاقے علی پور سے تحصیل علم اور رزق رسانی کے لئے لاھور آنے والے قائم نقوی کے ہاں ھجرت کا استعارہ اپنی بھرپور معنویت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے.
منزل پانے کی ان دیکھی خواہش میں
اک مدت سے ھم نے اپنا گھر نہیں دیکھا
قائم نقوی کے ہاں سفر علامت ہے ھجرت کے استعارے کی.
کتنے بیلوں کی خاک چھانی ہے
ہم نے کتنے چناب دیکھے ہیں
دربدر کی خاک چھانتا قائم نقوی اپنے تخلیقی سفر میں صراط مستقیم پر چل رہا ہے. زمانے کی ھجرتیں اس کے تخلیقی سمت تبدیل نہ کر سکیں.
ھجر موسم وصال لمحوں میں
ھمسفر ایک ہنر بنایا ہے
شاعری میں الفاظ کا ذخیرہ ، لاشعور سے شعور میں سفر کرنے والے واقعات اقر تصویر کشی بقول ٹی ایس ایلیٹ، فنی اور تخلیقی سفر ہے. قائم نقوی کے فن کا ہنر انہی چیزوں کے گرد گھومتا ہے.
حقیقی معنوں میں ھجرت قائم نقوی کے زاویہ نظر کا اندرونی خدوخال ہے.
قائم نقوی کے ناقدین نے اسے دھیمے لہجے کا شاعر قرار دیا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ قائم اپنے شہر سے اکھڑ کر جس اذیت سے گذرا ہے اب اپنی بکھری ہوئی
ذات کو سمیٹتے ہوئے باآواز بلند کہہ رہا ہے
ہر ذھن میں کب مجھ سی شوریدہ سری ہوگی
جو بات بھی ہونٹوں سی نکلے گی، کھری ہوگی
قائم کی شاعری میں ہمہ جہتی ہے، ہر جہت کا اپنا رنگ ہے. معاشرے کی ناانصافی ، بے ثباتی اوربے حسی بالآخر انقلاب کی صورت امید کی کرن بن کر ابھرتی ہے.
نظم " اے اسرافیل آ " میں قائم کا کہنا ہے
تمہیں خبر ہے ہم اپنی آنکھوں
کے رت جگوں میں پرے پڑے برف
ہو چکے ہیں
ہم اپنے رنگوں میں کھو چکے ہیں
تمہیں خبر ہے ہم اپنی پہچان کھو چکے ہیں
اس ایک نقطے پہ متفق اور منتظر
ہیں کہ کوئی آئے ،صور پھونکے
ایک اور جگہ قائم کا کہنا ہے کہ
میں اس سنگین سناٹے میں قائم
کسی طوفاں کی آہٹ سن رہا ہوں
بےحسی کی مثال پیش کرتے ہوئے قائم نقوی کا کہنا ہے
ایک عمر سے ہم تو
خامشی سے رہتے ہیں
دیکھتے ہیں ہم سب کچھ
اور کچھ نہیں کہتے
وقت کی عدالت میں
بول دیں جو سچ ہم بھی
دار پر لٹک جائیں
 چپ رہے تو مر جائیں
ایک حشر اندر ہے
باہر بھی ہے اک محشر
بند ہونٹ کھولے کون
سچ یہاں پہ بولے کوں
شاعری کے یہ تمام پہلو اپنی جگہ مگر ہجرت کا استعارہ قائم نقوی کی ہر جہت پر بھاری ہے.
منزل پانے کی ان دیکھی خواہش میں
اک مدت سے ہم نے اپنا گھر نہیں دیکھا
تلاش رزق میں ہم بھی چلے تھے
مگر گھر لوٹ کر آئے نہیں ہیں
تحریر: رضاالحق صدیقی

Raza Ul Haq Siddiqi
Cell: 03334254489
E.Mail: raza_siddiqi@hotmail.com 
 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE