|
سعید روشن کویت کر لیا ہے جس نے یارو آگہی کا تجربہ اس کے چہرے پر ملے گا روشنی کا تجربہ ختم ہو جاتے ہیں سارےفلسفے اپنی جگہ سامنے آتا ہے جب بھی آدمی کا تجربہ نرم مٹی نے بھی چومے بارہا اپنے قدم خشک لب بتلا رہے ہیں تشنگی کا تجربہ پیٹھ پر سورج اٹھائےعمر بھر چلتا رہا اس کی باتوں میں ملے گا زندگی کا تجربہ ہے اسی کا نام روشن شاعری میں آج بھی اس کے اک اک شعر میں ہے اک صدی کا تجربہ
|