|
سلیم کوثر ملنا نہ ملنا ایک بہانہ ہے اور بس تم سچ ہو باقی جھوٹ فسانہ ہے اور بس لوگوں کو راستے کی ضرورت ہےاور بس اور مجھے اک سنگ رہ گزر کو ہٹانا ہےاور بس سوئے ہوئے تو جاگ ہی جائیں گےایک دن جو جاگتے ہیں ان کو جگانا ہےاور بس تم وہ نہیں ہو جن سے وفا ک امید ہے تم سےمری مراد زمانہ ہے اور بس پھولوں کو ڈھونڈ تا ہوا پھرتا ہوں باغ میں باد صبا کو کام میں لانا ہے اور بس آب وہوا تو یوں بھی مرا مسئلہ نہیں مجھ کو تواک درخت لگانا ہے اور بس نیندوں سے رت جگوں کا الجھنایونہی نہیں اک خواب ِ رائیگاں کو بچانا ہے اور بس اک وعدہ جوکیا ہی نہیں ہے ابھی سلیم مجھ کو وہی تو وعدہ نبھانا ہے اور بس ........................................... جنسِ نایاب تھے لائے گئے بازار میں ہم خود کو اب ڈھونڈ تے ہیں چشم ِخریدار میں ہم جانے کب نقش بہ دیوار ہوئے یاد نہیں آ کے بیٹھے تھے ترے سایہء دیوار میں ہم دست بردار ہوئے ہی نہیں ہم تجھہ سے کبھی یعنی ہر لمحہ رہے حالت انکار میں ہم ہم ہیں بے تیغ و سناں عشق کی تہذیب کے لوگ پا بہ زنجیر ہی لائے گئے دربار میں ہم ہر زمانے کی کہانی میں رہے ہیں موجود تم شہنشاہ کے ، درویش کے کردار میں ہم آئینہ دار ترے عکس کی تمثیل میں ہم کیا سے کیا ہو گئے اے دوست ترے پیار میں ہم جیسے دنیا میں ہمیں او ر کوئی کام نہیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں اک شخص کو بے کار میں ہم خود بھی ہم گھر سے خبر بن کے نکلتے تھے سلیم جن دنوں کام کیا کرتے تھے اخبار میں ہم
|