غزل
شوکت علی ناز
کبھی دیوار ، کبھی در کی طرف جاتے
ہیں
راستے سارے ترے گھر کی طرف
جاتے ہیں
اک جنوں ہے جو مجھے دشت میں لے
جاتا ہے
ورنہ پیاسے تو سمندر کی طرف
جاتے ہیں
ایک میں ہوں کہ نکل جاتا ہوں رہزن
کی طرف
کارواں والے تو رہبر کی طرف
جاتے ہیں
کوئی تو ہے پسِ دیوارِ چمن جس
کے لیے
زاویے نظروں کے منظر کی طرف
جاتے ہیں
ایک ہی چرٹ میں ہوجائیں گے
ریزہ ریزہ
آئینے کس لیے پتھر کی طرف
جاتے ہیں
زورِ بازو سے بنا سکتے ہیں
تقدیر جو لوگ
جانے کیوں قیدِ مقدر کی طرف جاتے
ہیں
ناز انجانی سی خوائش ہے جو لے
جاتی ہے
لوگ کب اس بتِ کافر کی طرف جاتے
ہیں