|
تبسم صدیقی تاکید ہے کہ راز محبت عیاں نہ ہو ممکن کہاں کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو دعویٰ جنہیں خدائی کا ہے ان سے یہ کہو ایسی بہار لائیں کہ جس کی خزاں نہ ہو اب شوق ِ راہنمائی میں اڑنے لگا غبار اب راستے میں خضر کوئی مہرباں نہ ہو کیسی صدا یہ آئی کہ رکنے لگے قدم اس رہ گزر پہ تیرا کہیں آستاں نہ ہو لیکن میرے گمان کو آتا نہیں یقین صوتِ جرس ہو اور کوئی کارواں نہ ہو کیا اس کی لب کشائی سرِبزم ِ گل رخاں جس کے بیاں میں نکہت ، حسنِ بیاں نہ ہو |