|
نصرت زہرا
عثمان ارشد اردو کی ممتاز اور مقبولِ عام ویب
سائٹ اردومنزل کے توسط سے ہم آپ کا تعار
ف اکثر بہت تجربہ کار اور منفرد فن کے تخلیق کا روں سے کرواتے ہیں
اور کبھی ان مصنّفین سے جو اپنی حساس اور موزوں طبیعت کے باعث ہر
واقعے کو قلم زد کرتے ہیںان کی یہی خوبی جلد قارئین کو متوجہ
کرلیتی ہے ۔ابلاغ اور اطلاعات کے اس دور میں انٹرنیٹ کی اہمیت سے
اب انکار نہیں کیا جاسکتا ۔اب کتاب پڑھنے کی بجائے ہم انٹرنیٹ کے
تیزترین ذریئے سے مستفید ہونا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اورو ہ تما م
لوگ قابلِ ستائش ہیں کہ جو تیز بہاؤ میں بہنے کے بجائے ایک متعین
سمت میں سفر کرتے اور راستہ دکھانے کا باعث بنتے ہیں عثمان ارشد کا
نام بھی ایسے ہی لوگو ں میں شامل ہے آیئے ان سے بات کرتے ہیں ۔
س ۔ ابتداء میں ہمارے قارئین کو
اپنے بارے میں کچھ بتائیے ؟ ج۔ میں ایک عام پاکستانی شہری ہو
نے پر فخر کرتا ہوں ۔ میں شہر راولپنڈی میں
1974ع میں پیدا ہوا۔
میرے والد میاں محمد سمیع صاحب مرحوم ٹیکسٹائل انجینیئر تھے۔ اور
ساتھ ہی ایک صاحبِ طرز شاعر اور مقالہ نگار بھی تھے۔ میں نے بھی
اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ٹیکسٹائل مارکٹنگ کے شعبے کا
انتخاب کیا اور ساتھ ہی مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری اور مضمون نگاری
میں بھی قسمت آزمائی کی ۔ میں نے ڈاکٹر یونس بٹ صاحب سے بہت کچھ
سیکھا اور میں اُن کو اپنا اصلاح کنندہ اور راہنما سمجھتا
ہوں۔لکھنے کے میدان میں انھوں نے ہمیشہ میری بہت حوصلہ افزائی
فرمائی۔ میں معاشرتی مسائل کے بارے میں لکھتا ہوں بالخصوص پاکستان
بھر کی خواتین اور بچّوں کی تعلیم اور صحت کے مسائل کے بارے میں۔
میں بیباکی سے سچ لکھتا ہوں ۔ میری زندگی کے کوئی خواب یا مقاصد
نہیں ہیں ، میں تو صرف مرنے سے قبل ایک ایسا پاکستان دیکھنے کا
خواہشمند ہوں جہاں زندگی کے ہر شعبے سے تعلّق رکھنے والے لوگوں کے
لئے انصاف، مساوات، اور خوش حالی کا دور دورہ ہو۔ صرف حکمرانوں اور
مراعات یافتہ طبقے کے لئے نہیں۔ س۔ آپ نے اظہار کے لئے تخلیق کے
اس شعبے کو خود منتخب کیا یا اس نے آپ کا انتخاب کیا؟ ج۔ میں اپنے والد سے بہت متاثّر
تھا اور میرے خمیر میں اچھّی شاعری اور مقالات کا پڑھنا اور لکھنا
شامل ہے۔ لکھنے کے ذریعے میں اپنا ایک دینی فریضہ پورا کررہا
ہوں۔’’ اگر تم بُروں کے خلاف لڑ نہیں سکتے تو اس کے خلاف لکھو اور
اس کے خلاف بات کرو۔ اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے توتم کم سے کم اُ
ن کو دِل میں بُرا ضرور سمجھو‘‘۔ س۔ کیا آپ کے خیال میں آپ کی
تحریریں اس دور میں کارگر ثابت ہوسکتی ہیںجب کہ قدروں
کے نمبر منسوخ ہوچکے ہیں اور لوگ معقول بات سننے کو تیار
نہیں ہیں؟ ج۔ شاعری اور ادب کی دوسری اصناف ہمیشہ لو گوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہو تی ہیں۔ جیسے کہ علّامہ اقبال نے فرمایا: ’’ مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ الّااللہ‘‘ ۔ بس ہم سچ لکھتے رہیں گے ۔ لوگ اب بھی فیض، اقبال، حبیب جالب، اکبر الٰہ آبادی اور پروین شاکر کے دیوانے ہیں ۔ بعض اوقات ایک مصرعہ بھی انقلاب لانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اور آج کل کے ذرائع ابلاغ، الیکٹرانک میڈیا، اور انٹر نیٹ کے ساتھ اب اپنا پیغام ، چہار دانگ عالم میں پہنچا دینا ہمیشہ سے کہیں زیادہ کم وقت میں ممکن ہے۔ س۔ آپ میڈیاکے لئے بھی کام کرتے
ہیںکیا آپ نہیں سمجھتے کہ میڈیا کا منہ زور گھوڑامعاشرے میں مزید
بے چینی اور ابتلاء کا باعث ہے؟ ج۔ میں زرد صحافت کے بہت خلاف ہوں
۔ ہم کو ذمّہ داری اور احتساب کے احساس کے ساتھ لکھنا چاہیئے۔ ہم
کو امّید پھیلانی ہے۔ اور ہمیشہ ہمیں مسائل کے ممکنہ حل ڈھونڈنے
چاہیئیں۔ اپنا پرچہ یا اپنے چینل کا ائر ٹائم بیچنے کے لئے اگر کچھ
شخصیات کو نشانہ بنا لیا جائے تو یہ پیشہ ورانہ تقاضوں کے خلاف ہے۔
یقیناً ہر شخص صحیح صورتِ حال معلوم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ بھی
ہماری ذمّہ داری ہے کہ ہم دنیا کو دکھایئں کہ ہم ایک محنتی، صاحبِ
برداشت اور با صلاحیت قوم ہیں۔ اور ہم پر ’’دہشت گردی ‘‘ کا لیبل
لگانا مناسب نہیں ہے۔ س۔ آپ فکاہییہ ،مزحیہ اور سنجیدہ
ادب کے ذریئے اپنا مطمع نظر بیان کرتے ہیںکس میدان میںآپ زیادہ
سہولت محسوس کرتے ہیں ؟ ج۔ مجھے سنجیدہ کام میں زیادہ مزہ
آتا ہے۔ کیوں کہ ایسی تحریر میں زیادہ گہرائی میں جا کر حالات کا
تجزیہ کرنے اور گہرے مطالب اخذ کرنے اور پیغام دینے کا موقع ہوتا
ہے۔ س۔ جب سے ہم نے اطلاعات کے سیلاب
یعنی میڈیا ،انٹرنیٹ اور موبائل فون پر بہت زیادہ انحصار کرنا شروع
کیا ہے ہم اجتماعی طور پر غورو فکر کی قوت سے محروم ہوگئے ہیںآپ اس
خیال سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں ؟ ج۔ مجھے اس بات سے اتّفاق ہے کہ
ذرائع ابلاغِ عامّہ جیسے ٹی ۔وی، پرنٹ میڈیا، اور انٹر نیٹ وغیرہ
نے قارئین اور سامعین کی توجّہ کا دورانیہ بہت مختصر کر دیا ہے اور
بہت منفی پُر کشش مواقع مہیّا کر دیئے ہیں۔ لوگ زیادہ چمک دمک اور
فیشن کی جانب کھنچتے ہیں لیکن اب یہ ہم لکھنے والوں اور شاعروں پر
منحصر ہے کہ ہم اُن کو ادب کی سمت واپس لائیں اور اُن کو تعیّشات
کی جگہ بنیادی ضروریات پر توجّہ دینے پر مجبور کریں۔ ٔٔس۔ کیا کتاب سے دوری بھی اس کی
ایک وجہ ہے؟ ج۔ یقیناً لائبریریوں کے خالی ہو
نے کی بھی یہ ہی وجہ ہے۔ ہم کو زندگی میں شارٹ کٹ چاہیئے ہو تے
ہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ معلومات کم سے کم وقت میں حاصل کرنا چاہتے
ہیں ۔ اور مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا کہ اب کوئی بھی کتاب تحفہ
میں نہیں دیتا۔ ہمار ے بزرگوں کی ایک چھوٹی لائبریری گھر میں ضرور
ہوا کرتی تھی جس میں اچھّی کتابیں ہو تی تھیں جو گھرکے تمام افراد
پڑھ سکتے تھے۔ اب ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں ۔ اب پمیں ہر برانڈ کے
کپڑے، ملبوسات، گاڑیاں اور ہر چیز حاصل کرنے کا خبط ہو گیا ہے ،
چاہے ہم اُن کی مالی سکت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔ صرف ایک جھوٹی
پہچان بنانے یا اعلیٰ طبقے میں گردانے جا نے کی ایک سعیء لا حاصل۔
س۔ شاعری آپ کے لئے کیا ہے آپ اس
کی تعریف کس طرح بیان کریں گے؟ ج۔ میں شاعری کی تعریف یوں کرتا
ہوں کہ یہ روح کی گہرائی سے اُٹھنے والی وہ جگانے والی آواز ہے جسے
لکھنے والا اور قاری بیک وقت سنتے ہیں۔ ج۔ مجھ کو شاعری کی دونوں صورتیں یعنی مزاحیہ اور سنجیدہ ، پسند ہیں ۔ میں اس چیز کا خیال رکھتا ہوں کہ اس کو ہر ایک پڑھ سکے اور کوئی غیر مہذّب بات اس میں نہ آنے پائے۔ |