وزیرآغا
آج تاریخِ اردو
ادب کی ایک اھم اور معتبر شخصیت محترم ڈاکٹر وزیر آغا ھم سے رخصت ھو گۓ.....
انا اللہِ وانا اللہِ راجعون ۔
ہم
اردومنزل کی جانب سے ادبی برادری ، ڈاکٹر وزیر آغا کے اہل خانہ ، متعلقین
اور دوستوں سے اظہار تعزیت کرتے ہیں یہ صدمہ پوری ادبی برادری کا صدمہ ہے
صبیحہ
صبا ، صغیر جعفری
.................................................
وزیرآغا
سکھا دیا ہے زمانے نے بے بصر
رہنا
خبر کی آنچ میں جل کربھی بے خبر
رہنا
سحر کی اوٹ سے کہنا کہ ایک پل
تو رکے
کہ نا پسند ہمیں بھی ہے خاک پر
رہنا
تمام عمر ہی گذری ہے دستکیں
سنتے
ہمیں تو راس نہ آیا خود اپنے
گھر رہنا
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے
پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر
رہنا
شجر پہ پھول تو آتے رہے بہت
لیکن
سمجھ میں آ نہ سکا اس کا بے ثمر
رہنا
عجیب طرز تکلم ہے اس کی آنکھوں
کا
خموش رہ کے بھی لفظوں کی دھار
پر رہنا
ذرا سی ٹھیس لگی اور گھر کو
اوڑھ لیا
کہاں گیا ، وہ تمہارا نگر نگر
رہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگ اور روپ سے جو بالا ہے
کس قیامت کے نقش والا ہے
چاندنی اس بدن کی اترن ہے
سبز شبنم گلے کی مالا ہے
چاپ اتری ہے دل کے اندر سے
کوئی پلکوں پہ آنے والا ہے
توڑ سکتا ہے کون خوشبو کو
پھر بھی ہم نے یہ روگ پالا ہے
دیکھ اس ایک چاندنی شب میں
کس نے تاروں کو روند ڈالا ہے
پتی پتی ہوئے ہیں پھول تمام
پھر بھی خاموش پھول والا ہے
کپکپانے لگے ہیں لب اس کے
جانے کیا بات کرنے والا ہے |