|
یعقوب تصور حصول رزق کے ارماں نکالتے گزری حیات ایک سے سکے ہی ڈالتے گزری مسافرت کی
صعوبت میں عمر بیت گئی ہوا نے جشن منائے وہ انتظار کی رات چراغِ حجرہ ء فرقت سنبھالتے گزری وہ شوخ لہر تو ہاتھوں سے لے گئی کشتی پھر اس کے بعد سمندر کھنگالتے گزری رسائی جس کی نہ تھی بیکراں سمندر تک وہ موجِ نہر بھی چھینٹے اچھالتے گزری یہی نہیں کہ ستارے تھے دسترس سے بعید ذرا ذرا سی تمنا بھی ٹالتے گزری تمام عمر تصور ردائے بخت سیاہ مشقتوں کے لہو سے اجالتے گزری
|