|
کنیز فاطمہ اشرف شاد میرے پہلو سے کوئی اٹھ کے گیا ہے پھر سے دل کے اندر مرے اک درد اٹھا ہے پھر سے آنکھ میں نم ہے نہ چہرے پہ ہے غم کا سایہ زخم کاری ہے جو سینے پہ لگا ہے پھر سے میرے رستے میں بہت پھول بچھے تھےپھر بھی ایک کانٹامرے پاؤں میں چُبھا ہے پھر سے میرے چہرے پہ جو پھیلا ہے شفق کا موسم ایسا لگتا ہےکہ کچھ اس نے کہا ہے پھر سے کس نے آکر میرے دروازے پہ دستک دی ہے دل کے زخموں میں بہت شور مچا ہے پھر سے اس کا اک شعر سنا ہے تو لگا ہے جیسے میرے آنگن میں کوئی پھول کھلا ہے پھر سے |