Urdu Manzil


Forum

Directory

Overseas Pakistani

 

ایوب خاور،سات سریں اور بہتادریا

زاہد حسن

میں کہ آج تک خالد احمدصاحب سے یہی سنتا چلا آیا تھا کہ شاعری حالات و واقعات اور مسائل و معاملات کا حقیقی اورتخلیقی بیان ہوتی ہے جو بدلتے ہوئے حالات اور زمانے کے ساتھ اپنے اندر وسعت اور گہرائی پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔میں نے موجودہ صورت حال کے تناظر میں جو ’’دیوانِ خاور‘‘سے زائچہ نکالا تو میری انگلی کے نیچے صفحہ77تھا۔نظم تھی’’ابھی موسم نہیں آیا‘‘اور سطریں یہ تھیں۔
 

ابھی کچھ دیر باقی ہے
 

ابھی گلیوں،مکانوں کی چھتوں پر
 

ڈیوڑھیوں میں،خنجر بکف خامشی پہرے پہ فائز ہے
 

یہاں اس قریۂ عبرت میں اک قصرِ بلند و پرچشم ہے
 

جس کے فرشِ نیلمیں پر اک انبوہِ غلاماں
 

صف بہ صف خالی سروں کو اپنے سینے پرجھکائے
 

 ہاتھ باندھے ،اپنے آقا سے وفاداری کا دم بھرتا ہے
 

حاجت مند سائل کی طرح بے وزن لہجے میں سخن کرتا ہے
 

جیتا ہے نہ مرتا ہے
 

ذرادیکھو
 

ذرا اس قریۂ عبرت کے قصرِپرُحشم سے اس طرف دیکھو
 

ہوا محبوس ہے،برگ وثمر سے خالی پیٹروں کی
 

برہند ٹہنوں کے ساتھ گرہیں ڈال کر باندھی گئی ہے اور زمستاں کی سنہری دھوپ ٹکڑے ٹکڑے کرکے شہر کی اونچی چھتوں پر چیل کووؤں کے لیے ڈالی گئی ہے
 

وہ زمینیں اوروہ زمانے جہاں شہر،ہمہ وقت آشوب میں رہتے ہیں وہاں شہر آشوب لکھے جاتے ہیں اور محبتوں کی آرزوئیں پر بریدہ اور لرزیدہ پلکوں کی دہلیز پر نم آلود رہتی ہیں۔ساتھ ہی دعاؤں کا ابدگیر و ازل گیر سلسلہ بھی جاری وساری رہتا ہے۔

ربِ کعبہ!

تتلیوں کے نرم رنگوں جیسی آنکھوں کو

سمندر کی طرح
 

بے تاب و دل کو اور گلابوں سے لدی بانہوں
 

چراغِ لمس کی لو میں لرزتے گرم ہونٹوں کو،سماعت کو اور اس کے نرم رُوکلیوں کی صورت نیم خوابیدہ بدن کو آیۃ الکرسی کے سایے میں

بہت محفوظ رکھنا، تیری دنیا میں

محبت کرنے والے اور محبت جیتنے والے بہت کم ہیں ،بہت کم ہیں

 لکھنے والوں کی طرح پڑھنے والوں کے بھی کئی موسم ہوتے ہیں۔ہم پڑھنے والوں کا ایک موسم تھا جب ہم ایوب خاور کی یہ غزل پڑھتے تھے،سنتے تھے اور سردھنتے تھے۔

سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام

ہر سر میں ہے رنگ دھنک کا تیرے نام

تیرے بنا جو عمر بتائی بیت گئی

اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام

دکھ کے گہرے،نیلے سمندر میں خاور

اس کی آنکھیں ایک جزیرہ تیرے نام

اورایک یہ موسم ہے،موسم گل خزاں، کہ ہم یہ پڑھتے ہیں۔

بات یہ تیرے سوا اور بھلا کس سے کریں

تو جفا کار ہوا ہے، تو وفا کس سے کریں

زلف سے،چشم و لب و رخ سے کہ تیرے غم سے

بات یہ ہے کہ دل وجاں کو رہا کس سے کریں

ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں

اب بتا!کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں

بات یہ ہے کہ ایوب خاور،کچھ اور طرح کے شاعر ہیں، طے شدہ اور رواجی ڈگر سے ہٹے ہوئے، وہ رشتوں کو اور رشتوں سے جڑے جذبوں کو دنیا،اہل دنیا اور اس کی ریاکاری سے خلط ملط نہیں کرتے، اپنی شاعری کو سچل رکھتے ہیں اور خودصادق اور سچل رہتے ہیں۔وجہ اس کی انھوں نے خود ایک جگہ بیان کررکھی ہے۔

’’حقیقت تو یہ ہے کہ شاعری میری محبت ہے لیکن میں ا س سے محبوبوں جیسا نہیں محبوباؤں جیسا سلوک کرتا ہوں۔شاعری کو میں نے اس وقت تک گلے نہیں لگایا جب تک اس نے ضدی بچے کی طرح نوچ نوچ کر اور مجھ سے لپٹ لپٹ کر مجھے اپنے جیسا نہ کر ڈالا۔چناں چہ میں نے جو کچھ لکھنے کی کوشش کی اس میں ’’شدتِ اظہارِ ذات‘‘ ہی کا مسئلہ رہا۔‘‘
 

اور میں نے ایوب خاور کے جس جداگانہ تیور کی بات کی ہے اس کی سند مجھے گل زار کے یہاں بھی مل گئی ہے ۔

کہتے ہیں:

ایوب خاور کا طرزِ اظہار خالص اس کا اپنا ہے، ایک شاعر کو جو بات دوسرے شاعر سے الگ کرتی ہے وہ اس کی آواز کا Timber ہے۔

اس کی آواز کا یہ خالص پن ہمیں اس کی غزل میں بھی ملتا ہے اور نظم میں بھی دکھائی پڑتا ہے۔ اور اس میں بھی اس نے علیحدہ سے ایک امتیاز روا رکھا ہے۔ صدیوں سے اردو شاعری کا موضوع بننے والے مضامین کو یکسر انفرادیت عطا کی ہے اور صدیوں سے جاری طے شدہ راستوں سے نیاراستہ نکالنا ہی نئی روایت قائم کرنا ہوتا ہے۔آنکھیں،محض اردو شاعری ہی کا نہیں،عربی ،فارسی اور قدیم سندھی شاعری کا بھی من پسند موضوع رہا ہے۔آنکھیں اور وہ بھی محبوب کی آنکھیں، ایوب خاور،جب اپنی شاعری میں ان آنکھوں کو موضوع بناتا ہے تو اظہار کچھ ایسی شکل اختیار کرتا ہے۔

ہوا غبار، بھرا گھر بھی، میری آنکھیں بھی

بچھڑتے وقت کا منظر بھی، میری آنکھیں بھی

بجھا چراغ تمنا تو بجھ گئے خاور

تمھاری یاد کے منظر بھی ،میری آنکھیں بھی

اور یہ کہ :

خاور اب کس سے کہوں کہ مجھے اک روز

اس آنکھ میں دونوں جہان دکھائی دیے

انسانی آزادی اور آزادی کے ساتھ محبت، یعنی محبت میں مکمل آزادی ایوب خاور کی شاعری کا بنیادی موضوع ہے۔انسان جسے آج تک کی تاریخ میں مجبورِ محض کا نام دیا جاتا رہا ہے۔اعلیٰ تخلیقی شاعری کی سطر سطر میں اس نے جگہ پائی ہے۔ایوب خاورکے یہاں اس کا رنگ اور نمایاں اور زیادہ بڑھ کر ہے ۔بجا کہ ایک طرف وہ گیسوئے لیلیٰ کے فراق میں خاک بسر دکھتا ہے۔

لیلیٰ ہجر!تری گردِ کف پاکی طرح

سینۂ خاک پہ اک خاک بسر ہے کہ جو تھا

لیکن رنگ و نور اور جمال تک رسائی کی خواہش جو ایک طرح سے انسانی آزادی ہی کا کامل اور مکمل استعارہ ہے۔وہ بھی ہمیں اسی غزل کے ایک شعر میں ملتی ہے۔

آئینہ سنگ صفت تھا مگر اک نقشِ جمال

آج تک اصل ہنر، رزقِ نظر ہے کہ جو تھا

اور یہ خواہش، یہ آرزو مکمل تبھی ہو پاتی ہے جب اس کی رسائی اس کے اپنے مطلوب و محبوب تک ممکن ہوجاتی ہے کیوں کہ:

وہ خوش رُو جب نہیں ہوگا تو یہ سب کون دیکھے گا

ہمارے دل پہ جو گزرے گی یا رب کون دیکھے گا!

فریقِ ثانی کے طور پرہی سہی، دیکھنے کے لیے ہم ہیں تو ،لیکن ہمارے دل پہ جو کچھ رقم ہوتا ہے اسے کون دیکھتا ہے۔ ۔ ۔ ایوب خاور ایک ایسا شاعر ہے جو اپنے سخن کے ساگر میں اپنی شعری صفات کو موجۂ پایاب کی مانند لیے ہمارے رو برو ہے۔ ہمیں اس میں سے سیپیوں اور موتیوں کو چننا ہے اور یہی کار مشکل ہے۔ خیر ہمیں ارادہ تو باندھنا چاہیے!  

  

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PA