ظہورالاسلام جاوید
ممتاز شاعرظہورالاسلام جاوید مشاعروں کے ناظم ،
منتظم اعلیٰ اورایک
وضعدار انسان ہیں
صبیحہ صبا
پردیس میں رہنے والے بہت سے لوگ زندگی کو ایک ذمہ داری سمجھ کر
گذار دیتے ہیں۔روزمرہ زندگی کا اک دائرہ بنالیتے ہیں اور اسی میں
گھومتے رہتے ہیں
پھر جس انداز میں بھی واپسی کا وقت آتا ہے تو
خاموشی سے اپنی راہ لیتے ہیں ۔کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کب آئے اور
کب چلے گئے۔اس میں حالات کی ستم ظریفی بھی ہوتی ہے اورلوگوں کی
مجبوریاں بھی ۔اسی پردیس میں کچھ لوگ بھرپور زندگی گذارتے ہیں۔اپنے
لئے بھی دوسروں کے لئے بھی نئی امنگ اور ترنگ پیدا کرتے ہیں۔کیونکہ
یہاں گزرنے والے سال زندگی کے بہت قیمتی اور اہم سال ہوتے
ہیں ظہورالاسلام جاوید بھی ایسے ہی زندہ دل لوگوں میں شامل ہیں
جنہوں نے اپنے وجود سے صحراؤں کو مہکائے رکھا۔شاعری ورثے میں ملی
لیکن اس ورثے کو سنبھالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔یہ ورثہ
وہی سنبھال سکتے ہیں جنہیں خود بھی یہ ہنر عطا کیا گیا ہو
ظہورالاسلام جاوید پیشے کے اعتبار سے انجینئرہیں۔ ابتدائی ملازمت
بحریہ کے شعبہ انجینئرنگ میں اختیار کی ۔پھر ان کا تبادلہ چٹاگانگ
ہوگیاسقوط ڈھاکہ کے دواران جنگی قیدی بنے۔ٹھیک ایک سال بعد کراچی
پہنچے, 1974 سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں ملازمت کا زیادہ تر
وقت العین اور ابو ظبی میں گزارا۔انھوں نے اپنے والد محترم انعام
گوالیاری کے دو شاعری کے مجموعے شائع کرائے ۔ پھر اپنامجموعہ ء
کلام موسم کا اعتبار نہیں کے نام سے شائع کرایا ان کی شاعری زندگی
سے قریب ہے زندگی کے جتنے رنگ و روپ ہیںوہ سب ظہور صاحب کی شاعری
میں سمٹ آئے ہیںوہ گھریلو نشستوں سے لے کر مشاعروں کے انتظام و
انصرام میں شامل رہے وہ نہ صرف اپنے مشاعروں کو پوری توجہ دیتے رہے
بلکہ دوستوں کے مشاعروں کو بھی اپنی توجہ سے کامیاب بناتے رہے ۔
ظہور الاسلام جاویدکی خوش قسمتی کہ گھریلو فضا بھی شاعری کے لئے
سازگار تھی۔اور یواے ای کی فضاؤں میں بھی شاعری نے اپنا رنگ
جمایاشاعری کی محفلیں ساری دنیا میں سجتی ہیںمگر یہاں ہونے والے
مشاعروں کی گونج دنیا بھر میں سنائی دیتی ہے۔اپنی کتاب موسم کا
اعتبار نہیںکا انتساب ظہور صاحب نے اپنی شریک حیات فہیم جہاں کے
نام کیا ہے۔بڑے اہم ادبی مراکز یا اپنے ملک سے دور رہنے والے
شاعروں پریہ دوری دو طرح سے اثر انداز ہوتی ہے ان اہل قلم کے
مشاہدے اور تجربے کی آنکھ وسیع ہو جاتی ہے موضوعات میں
زندگی کے نئے
رخ شامل ہو جاتے ہیں
اہل وطن کی چھوٹی چھوٹی گروہ بندیوں سے آزاد ی
مل جاتی ہے لیکن اپنے وطن میںرہنے کے جو فیوض و برکات ہیں اوروطن
میں رہتے ہوئے جو ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل ہے بیرون ملک رہنے
والے ا س سے کسی حد تک دور ہو جاتے ہیں۔ حصول رزق کے لئے وطن سے
دور رہنے کے مشاہدے کو ظہورصاحب نے خوبصورتی سے بیان کیا ہے
ہمیں
جو رزق دیا اس میں وسعتیں رکھ دیں
مگر
حصول میںصحرا کی حدتیںرکھ دیں
ماں
کی دعاؤں کو بارگاہِ خداوندی میں جو پذیرائی حاصل ہے ظہورالاسلام
جاوید نے اس موضوع کو خوبصورتی سے اپنے شعر میں بیان کیا ہے
لاکھ
گرد اپنے حفاظت کی لکیریں کھینچو
ایک
بھی ان میں نہیں ماں کی دعاؤں جیسی
آج کے
دور کے تلخ حقائق ہر حساس بشر کی جھولی میں بے چینیاں ڈالتے
ہیں۔ناحق خون بہہ رہا ہے۔نہ قاتل کو پتہ ہے کہ وہ کیوں قتل کر رہا
ہے نہ مقتول جانتا ہے اسے کیوں مارا جارہا ہے یہ سب قیامت کی
نشانیاں تو ہیں مگر شاعر بے ساختہ کہہ دیتا ہے
سروں کی فصل کٹنے کا یہ موسم تو نہیں لیکن
سروں
کی فصل کٹنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
ہمارے
دور میں اب نفسا نفسی کا یہ عالم ہے
جنازے
روز اٹھتے ہیں کہیں ماتم نہیں ہوتا
ظہور
صاحب کی شاعری میں خالص غزل کے اشعار بھی موجود ہیں۔لیکن انھوں نے
شاعری سے اصلاح کے پہلو کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے
نہ
جانے کب کوئی آشوب تم کو آگھیرے
عجیب
وقت ہے دستِ دعا دراز کرو
برائے
امن میں ہتھیار پھینک دیتا ہوں
مگر
یہ شرط کہ تلوار تو بھی میان میں رکھ
ظہورالاسلام جاویدایک وضعدار انسان ہیں انھوں نے اپنی کتاب میں عرض
مصنف رقم کرتے ہوئے اپنے رفقاء شاعروں ادیبوں کے ناموں کے علاوہ
اپنے بہن بھائیوں بیوی بچوں ، نانا ،ماموں ،والدین اور دوستوں کے
نام شامل کئے ہیں اس کے باوجود ان تمام احباب سے معذرت خواہ ہیں
جنکا ذکر وہ کتاب میں نہیں کر سکے
قائم ہے مجھی سے میرے اسلاف کی عظمت
میں
اپنے بزرگوں کی صداقت کا نشاں ہوں
اردو منزل کے زیر اہتمام منائی
گئی ایک شام
ظہورالاسلام جاوید کے نام میں
صبیحہ صبا ۔، سعدیہ روشن صدیقی۔
تسنیم عابدی،فہیم جہاں(بیگم ظہورالاسلام جاوید
یعقوب تصور،حسن اللہ ہما
شفیق
سلیمی۔ م ک حسرت صغیر احمد جعفری اور
ظہورالاسلام جاوید
|