|
ظہورالاسلام جاوید مزاج میں وہ طلاطم وہ انتشار نہیں پھر ایسا کیوں کہ ہمیں خود پہ اختیار نہیں میں اس کے واسطے جس درجہ بے قرار ہوں آج وہ میرے واسطے اس درجہ بے قرار نہیں اسے بھی شوق نہیں ہے گلاب بننے کا مجھے بھی فصلِ بہاراں کا انتظار نہیں عجب مزاج ہے اس کا بدلتا رہتا ہے ہمارے شہر میں موسم کا اعتبار نہیں جہاں یہ کام نہ دیوانگی مری آئے وہ اور سب ہے مگر موسمِ بہار نہیں ہزار مجھ پہ ہو تنقید یہ خیال رہے کہ میرو سودا و غالب یہ خاکسار نہیں ۔۔۔۔۔۔
|