|
ڈاکٹر زبیر فاروق د ل کا غم سے غم کا نم سے رابطہ بنتا گیا دھیرے دھیرے بارشوں کا سلسلہ بنتا گیا رنج و غم سہنے کی عادت اس قدر پختہ ہوئی ہارنا آخر ہمارا مشغلہ بنتا گیا ایک اک کرکے سبھی دکھ ساتھ میرے ہو لئے مرحلہ در مرحلہ اک قافلہ بنتا گیا ضبط کا دامن جو چھوٹا ہاتھ سے میرے تو پھر میرا چہرہ کرب کا اک آئینہ بنتا گیا ہر طرف پھیلا ہوا تھا بے یقینی کا دھواں خود بخود فاروق لیکن راستہ بنتا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بد گمانی کا سبب کوئی جتا یا بھی نہیں میں نے پوچھا بھی نہیں، اس نے بتایا بھی نہیں تیرا جانا تھا کہ آنکھیں ہی بجھا دیں میں نے منظر آنکھوں میں کوئی پھر تو بسایا بھی نہیں آنکھیں کرتی رہیں اس کی محبت کا بیان پیار کا دیپ مگر دل میںجلایا بھی نہیں مار ڈالے گی اناؤ ں کی لڑائی ہم کو میں تو روٹھا ہی رہا اس نے منایا بھی نہیں بے رخی ایسی کہ اس نے مرے آنے پر رخ پہ خوشبو کا کوئی رنگ سجایا بھی نہیں میرے حصے میں چلاآیا کہاں سے آخر درد فاروق جوخود میں نے کمایا بھی نہیں |