|
عباس تابش دشت میں پیاس بُجھاتے ہوئے مر جاتے ہیںہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چُپ چاپ ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں اُن کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں یہ محبّت کی کہانی نہیں مرتی لیکن لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں |