|
اکیڈمی ادبیات اسلام آباد کے رائٹرز ہاؤس میں صبیحہ صبا اور صغیر احمد جعفری کے اعزاز میں مشاعرہ
مشاعرہ مدیراعلیٰ اردومنزل صبیحہ صبا کی صدارت میں منعقدہوا ، مہمانِ خصوصی مدیر اردومنزل صغیر جعفری تھے ، ممتاز افسانہ نگار ، اور نقادمحمد حمید شاہد نے مہمان شعرا ء صبیحہ صبا اور صغیر جعفری کا تعارف پیش کیااور ابتدائی گفتگو کی منظر نقوی نے تقریب کی نظامت کی اورعلی یاسر اور اختر رضا سلیمی کی معاونت سے تقریب کا انعقاد کیاصبیحہ صبا اور صغیر احمد جعفری نے اسلام آباد کے شعراء کو خراجِ تحسین پیش کیا جنہوں نے اتنی اپنائیت اور تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا۔نورین طلعت عروبہ نے اردومنزل کی تعریف کی اور صبیحہ صبا کےکتابوں کے فروغ کے سلسلے میں پیش کئے جانے والے ویڈیوز کی تعریف کی اور منفرد انداز میں اردومنزل کی پیش کش کو سراہا۔انجم خلیق نے کہا کہ ہمیں مہمان شعراء کی عمدہ شاعری سننے کو ملی ۔ خوبصورت تقریب میں اسلام آباد اور مختلف شہروں سے آئے شعراء نے شرکت کی۔شعراء کے علاوہ متعدد ادباءنے بھی محفل کی رونق میں اضافہ کیا علی آزر ، ذوالفقار زلفی ، یاور عظیم ، مشتاق عادل ، پروفیسر راشدہ ملک ، حامد محمود ، احمد رضا راجہ ، فرح دیبا ، ارشد ملک ، محمد ظہیر قندیل ، علی اکبر ناطق ، علی یاسر ، اختر رضا سلیمی ، ضیاٰ المصطفٰی ترک ، نورین طلعت عروبہ ، انجم خلیق ، منظر نقوی ، صغیر احمد جعفری ، ، صبیحہ صبا نے اپنا کلام پیش کیا ۔ صبیحہ صبا میرا چہرہ ہے آئینہ میرا میں نے خود سے نکل کے دیکھ لیا پھر محبت کی وسعتیں دیکھیں جب محبت میں ڈھل کے دیکھ لیا صغیر احمد جعفری چہرہ ترا تو خواب کی تعبیر ہوگیا حیرت میں آکے میں کوئی تصویر ہوگیا جا زندگی کے سارے ہنر ترے نام ہیں یہ دل بھی ترے نام کی تفسیر ہو گیا منظر نقوی آج تو وہ مضمحل تھا اور کچھ خاموش بھی ہم نے بھی اس کے مقابل آئینہ رکھا نہیں یہ بھی کچھ شہد ِیقیں ہے اور کچھ زہر گماں کون کہتا ہےلہو میں ذائقہ رکھا نہیں یاور عظیم تم سمندر کی طرح آغوش وا کرتے نہیں ہم تو بن جاتے ہیں موج ِیم تمہارے سامنے کس لئے تم نیند میں شرما رہے ہو اس طرح خواب میں کیا آگئے ہیں ہم تمہارے سامنے ارشد ملک مسافر تو بچھڑتے ہیں ، رفاقت کب بدلتی ہے محبت زندہ رہتی ہے ، مھبت کب بدلتی ہے
اب زندگی کے شیلف میں ڈھونڈا کریں گے لوگ ارزاں ہوئے ہم اتنے کہ نایاب ہو گئے محمد ظہیرقندیل کوچہ ء حسن سےہم عشقِ ہنرلےآئے اپنی کٹیا کے جلانے کو شرر لے آئے ہم نے تنہائی بڑی چاہ سے حاصل کی ہے کاٹ کر شجر ِتمنا یہ ثمر لے آئے ذوالفقارزلفی کوئی جواز کا خانہ تراش لیتا ہوں میں زندگی کا بہانہ تراش لیتا ہوں میں اپنے آپ کو اب تک تراش پایا نہیں تراشنے کو زمانہ تراش لیتا ہوں احمد رضا راجہ رانجھےترا بھی جرم فقط کارِ عشق ہے ہیرے ترا بھی سارے کا سارا فتور عشق ہوتا ہے روز ہم پہ نزولِ غزل رضا کرتا ہے روز شعر کی صورت ظہورِ عشق فرح دیبا شبنم سے بھری قبائے گل نے آنچل کا مزاج لے لیا ہے اک ذرا سی ہنس کے بات ہوئی قصے سب نے بنا لئے کیسے علی یاسر حوصلہ اور ذرا حوصلہ اے سنگِ بدست وقت آئے گا تو خود شاخ سے ہم اتریں گے جیسے ہم آنکھ ملا کر ترے دل میں آئے لوگ اس زینہ ء دشوار سے کم اتریں گے اختر رضا سلیمی میں ہل چلاتے ہوئے جس کو سوچا کرتا تھا اسی کی گندمی رنگت ہے بالی بالی پر یہ لوگ سیر کو نکلے ہیں سو بہت خوش ہیں میں دل گرفتہ ہوں سبزے کی پائمالی پر ضیاٰ المصطفٰی ترک ۔ گزشتہ دشت نوردوں کا غم اٹھاتے ہیں جو بار اٹھائے نہیں اٹھتا ، ہم اٹھاتے ہیں کہ تا کسی کو تعاقب کا حوصلہ ھی نہ ہو قدم اٹھاتے ہی نقشِ قدم اٹھاتے ہیں انجم خلیق سوچتے ہی رہے اک ذرا دم تو لیں،سوکوئی کام ہی ہم نہیں کر سکے جس سے پچھلے سفر کی تھکن دور ہو، اتناآرام ہی ہم نہیں کر سکے کچھ انا عشق کی کچھ زمانے کا ڈرکچھ تری مصلحت کوشیوں کا قلق چندنظمیں جولکھی تھیں ترے لئے،وہ ترے نام ہی ہم نہیں کر سکے
|
||
|