|
اعجازگل
سنتے ہیں کوئی شہر ہے ادراک کے اس پار اس خاک سے باہر کہیں آفاق کے اس پار گردش میں ستارے رہے آدم کے عجب سمت پہنچا نہ پلٹ کر کبھی افلاک کے اس پار آزار اٹھا رکھا ہے دن رات ہوس نے تجھ شیشہ بدن کا کہ ہے پوشاک کے اس پار شاید مرے اجزا کی ملاوٹ ہی غلط تھی حیران نہ ہو خلق پہ اب چاک کے اس پار کچھ شوق نہیں قبضہء املاک کا لیکن ہے خال ترا جسم کی املاک کے اس پار پہلے تو گرہیں کھولنا سکھلاتی ہے تقدیر پھر جال سا پھیلاتی ہے پیچاک کے اس پار رونق سے ترے باغ کی انکار کسے ہے افسوس مگر ہے میرے خاشاک کے اس پار افسردہ سا مجمع ہے ادھر خاک کے اندر خوش باش ہیں کچھ لوگ ادھر خاک کے اس پار اے عمر ذرا صبر کہ ہنگام سے پہلے اترا نہ کوئی لمحہء سفاک کے اس پار ...................................... |