|
اعجاز گل در کھول کے دیکھوں ذرا ادراک سے باہر یہ شور سا کیسا ہے مری خاک سے باہر روداد گزشتہ تو سنی کوزہ گری کی فردا کا بھی کر ذکر کہ ہے چاک سے باہر خوش آیا عجب عشق کو یہ جامہء زیبا نکلا نہیں پھر ھجر کی پوشاک سے باہر چاہا تھا مفر دل نے مگر زلف گرہ گیر پیچاک بناتی رہی پیچاک سے باہر آتا نہیں کچھ یاد کہ اے ساعت نسیاں کیا رکھا ترے طاق پہ کیا طاق سے باہر سنتا ہو ں کہیں دور سے نقارہ صبا کا اتری ہے بہار اب کے بھی خاشاک سے باہر کچھ دیر ٹہر دیکھ لے آدم کا تماشا نا پید ہیں یہ رونقیں اس خاک سے باہر موجود خلا میں ہیں اگر اور زمینیں افلاک بھی ہوں گے کہیں افلاک سے باہر |