|
اعجاز گل نہ ڈھونڈھ عمر گزشتہ کے داغ پانی میں جو خاک گھل گئی کیسا سراغ پانی میں طلسم ہے کسی سوراخ کا کہ بھرتا نہیں ہزار ڈال کے رکھیئے ایاغ پانی میں ہے اس کے پاوں میں چقماق کا اثر ایسا بنائے لمس سے پتھر چراغ پانی میں ہوئی ہے خشک تو خاشاک و خار انکاری کہ جس زمین پہ کھلتے تھے باغ پانی میں ہنر تھا اس میں فقط آگ سے حفاظت کا بچا سکا نہ بدن کو دماغ پانی میں جو فرق تھا اسے آفات نے تمام کیا پڑے ہیں سامنے مینا و زاغ پانی میں بہا کے لے گئی سب ہست و بود موج فنا اگر رہا ہے تو پانی کا داغ پانی میں
|