|
ارشد شاہین کوئی خواہش ،نئی خیال نیا پھر کوئی راستہ نکال نیا کاٹ دیتا ہوں شام ہوتے ہی روزبنتا ہوں ایک جال نیا زندگی اس طرح گزاری ہے ہرقدم ہر گھڑی سوال نیا روز کرتا ہے لاجواب مجھے روز کرتا ہے وہ سوال نیا مدتیں ہو گئیں تجھے دیکھے کوئی لمحہ کبھی اجال نیا غم کو مہمیز پھر سے دے ارشد روگ سینے میں پھر سے پال نیا ارشد شاہین پہلے ااک امتحاں سے گزارا گیا مجھے پھر جا کے اس زمیں پہ اتارا گیا مجھے کوشش میں اب کروں بھی تو ممکن نہیں مفر شیشے میں اس طرح سے اتارا گیا مجھے تاریخ دیکھئے کہ میں آیا بصد نیاز مقتل کی سمت جب بھی پکارا گیا مجھے دکھ ہے یہی کہ ایک گواہی نہ مل سکی حالانکہ اک ہجوم میں مارا گیا مجھے ہر بار ہوگیا میں صف آرا عدو کے ساتھ جب جب مرے خلاف ابھارا گیا مجھے گھل کر بھی گھل نہ پائے گا ارشد مرا وجود حالانکہ بارشوں میں اُسارا گیا مجھے |