|
بانو ارشد
یوں تو ادیبوں اور
شاعروں کی برادری ایک نہایت حسین و خوبصورت برادری ہے کبھی کبھی ہم بس محفل
میں وقت گزاری کے لیے موجود ہوتے ہیں ۔مگر مجھ میں ایک برائی کُوٹ کُوٹ کر
بھر ی ہوئی ہے کہ جب بھی کسی ادبی محفل میں شرکت
کرتی ہوں ہر کسی کی بات بھی یاد رکھتی ہوںاور سامنے آنے والے کے لفظوں کو
اہمیت بھی دیتی ہوں ۔اور جب بھی کسی قلمکار،افسانہ نگار،یا شاعر و شاعرہ کے
لئے چند لفظ لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا تو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ میں
اس شخصیت کے قلم یا ذات سے کتنی واقف ہوں ۔اگر تو اس لکھاری کو اس کی شاعری
یا کہانیوں سے ہی جانا ہے تو ان کی شخصیت کا ذکر نہیں کرتی۔میں آج جس
فنکارہ ،شاعرہ ،افسانہ نگار کا ذکر کرنے لگی ہوں ان کا نام میرے تعارف کا
محتاج ہر گز نہیں محترمہ بانو ارشد صاحبہ کی ادبی مسافتوں اور اعزازات سے
کم و بیش پوری دنیا آگا ہ ہے۔زندگی کی طویل مشقت میں اپنے ادبی،فکری اور
انقلابی افکار کے بل پوتے پر مکمل عبور حاصل ہے۔ان کا ادبی سفر تو بچپن سے
ہی شروع ہو چکا تھا ۔والد صاحب ،بھائی ،ماموں ،سب کا ادبی دنیا میں ایک
اپنا اپنا کردار رہا ہے۔ان کا گھر علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا
کہتے ہیں عالمی شہرت حاصل ہو جائے تو غرور اور احساسِ برتری پیدا ہو جاتی
ہے ۔۔میں نے بانو ارشد صاحبہ کو بہت بڑھا ۔کسی نا کسی میگزین میں ان کا
کوئی نا کوئی مضمون یا افسانہ پڑھنے کو ملتا ہی رہتا ہے ۔آج میرے سامنے ان
کی دو عدد کتابیں موجود ہیں ۔ایک( بانو ارشد فن و شخصیت) اور دوسری کتاب
بانو کے مضامین ۔فن اور شخصیت میں بہت اعلیٰ درجے کے قابل لوگوں نے اظہار
خیال کیا ہے ۔سب نے اپنے اپنے قلم کی طاقت کو اپنے لفظوں میں بانو ارشد کو
اور مغرور بنانے کی کوشش کی ہے ۔نور جہاں نوری صاحبہ کہتی ہیں بانو ارشد
سراپا محبت اور پیار ہیں ، ان کی تحریروں میں بہت گہرائی ہے ۔میں کہتی ہوں
اس گہرائی نے اپنا قلم تجربات کی روشنائی میں ڈبو کر لفظوں کو سنوارا
ہے۔۔میں ان کے افسانوں پر کچھ نہیں کہوں گی ۔آج صرف اس کی شخصیت پر چند لفظ
لکھوں گی ۔میں پچھلے چند سالوں سے اس ہستی کو دیکھ اور سن رہی ہوں اور سننے
کے لیے روبرو ہونا بھی لازمی ہوتا ہے ۔پانچ سال پہلے اپنے ہی شہر میں ایک
مشاعرے کی نظامت کے فرائض کی ادائیگی کرتے دیکھا ۔پھر اس ملاقات کا سلسلہ
تو ہر سال ہی ہوتا رہا ۔میرا تو ادبی سفر سے رشتہ ہی کچھ ایسی نوعیت کا تھا
کہ مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے اور ختم ہونے تک ہوتا۔اب کی بار یہی ملاقات
عقیدت مندی کی منزل تک جا پہنچی۔اکسفورڈ میں خالد یوسف صاحب کی برسی کے
سلسلے میں سالانہ جلسہ منعقد ہوا ۔ہماری شمولیت ایک ساتھ ہوئی۔کہتے ہیں کہی
بار ایسا ہوتا ہے روز روز ملتے ہیں مگر ملاقات کی اہمیت نہیں ہوتی۔جس طرح
کبھی روز ایک چیز کھاتے رہو مزا نہیں دیتی پھر وہی چیز اچھی لگنے لگتی
ہے۔۔تقریب ختم ہوئی ہمیشہ کی طرح واپسی کی راہ لی ۔۔اسی ملاقات کی دوسری
صبح ابھی بستر پر تھی کہ موبائل کی گھنٹی نے چونکا دیا آواز کی بازگشت نے
حیرت میں ڈال دیا ۔دوسری طرف کی آواز جس کا بدحواسی میں خیر مقدم کیا وہ
آواز بانو ارشد کی تھی ۔پھر ہماری وہی فون کی طویل گفتگو ایک خوبصورت رشتے
پرختم ہوئی ۔میں نے ان کو بہت مخلص پایا ۔ان کا تحریر ی انداز نہایت دلکش و
خوبصورت ہے جیسا کہ اُن کی شخصیت ہر افسانے کے کردار وں میں خوبصورت لفظوں
سے تصویر ی شکل میںنظر آتی ہے۔کہتے ہیں ایک ہی تصویر پر بار بار بُرش
پھیرنے سے تصویر بگڑ بھی جاتی ہے۔میں ایسا ہرگز نہیں کروں گی۔اتنا کہوں گی
ہر افسانے کی اپنی رائیں ،اپنے کردار ،نئے راستے نئے افق اور نئی وسعیتں ان
کے لفظوں کی مرہون منت تھیں ۔بانو ارشد ایک بہادر خاتون ہیں اس میں کوئی شک
نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں علم سے مالا مال کر رکھا ہے۔علم کے اس دریا کا
اپنے اشارے سے رُخ بدل لیتی ہیں ۔اپنی کاوشوں کو بروِکار لاتے ہوئے انتھک
کوشش سے کامیابی وکامرانی کی منزلوں کو سَر کیا ہے۔مجھے وہ لوگ ہمیشہ اچھے
لگتے ہیں جو پتھروں کے گھروں میں رہ کر بھی موم ہوتے ہیں ۔میں نے بانو ارشد
کو بھی ایسا ہی پایا ۔لفظوں کے شجر اُگتے نہیں ،لفظوں کی ذہن کے کسی گوشے
میں آب یاری کی جاتی ہے۔پھر عمر وں کے ساتھ ساتھ یہ بیج جب شجر بنتے ہیں تو
ایک قلم کار،شاعر ہو یا افسانہ نگار اس کی طاقت بڑھنے لگتی ہے۔میرا کہنا
ایسا ہی ہے کہ سچے تخلیق کار کی تخلیقی قدرت کی ایک نعمت ہے۔اور بانو ارشد
ایک بنی بنائی تخلیق کار ہیں ۔
(اظہار خیال ) فرخندہ رضوی
ریڈنگ(انگلینڈ ) |