چاند کی مرضی
ہاجرہ بانو
چلو اچھا ہوا کہ بارش نے امسال رمضان کا سہارا لیا۔ یا رمضان نے بارش کا۔ خدا
جانے۔ لیکن عوام کے حق میں بہتر ثابت ہوا۔ کارپوریشن نے پانی و بجلی کے
قلتی لبادے میں خود کو ریزرو کرلیا۔ صاف صاف کہہ دیا گیا کہ سڑکوں کی
درستگی و تعمیر کے امور ماہ رمضان کے بعد ہی طے ہوں گے۔ گلہائے طشت میں عذر
یہ پیش کیا گیا کہ ڈامر اور باریک و موٹی ریت ماہ رمضان کے مختص نمازیوں کے
بابرکت قدموں سے پنج وقتہ بار برداشت نہیں کرپائیں گی۔ لہٰذا مستقل و عارضی
نمازیوں کے بار قدم سے سڑکوں کے گڑھوں میں مزید عمیقی آنے دیں تاکہ بعد
ازاں جانچ کے بعد درکار مٹریل کا آرڈر دیا جاسکے۔ سڑکوں کی قلت اور گڑھوں
کی برکت سے شجر کاری مہم میں اس سال بڑی گرمجوشی نظر آئی۔ تیار گڑھوں میں
پودے لگاکر ماحولیات کے تحفظ کا فرض پورا کرلیا گیا۔ بہتی گنگا میں ہاتھ
دھونے والے باذہین افراد نے اپنے گھروں کے سامنے موجود گڑھوں میں بجلی کی
ٹلو موٹر نصب کرکے پانی کی قلت سے نجات حاصل کی اور مکان کی احاطی دیوار کو
دو اینٹ آگے بڑھاکر موٹر چوری ہونے کے خدشے سے بھی محفوظ کرلیا۔ یک نہ شد
دو شد۔ مزید یہ کہ ان کی پیٹھ پر محلے کے کارپوریٹر صاحب کی تھپتھپاہٹ نے
سونے پر سہاگہ کا کام کردیا۔ چند ایک نے گڑھوں کے اندر ہی پانی کی پائپ
لائن توڑ کر چھوٹا سا کنواں بنالیا جو اڑوس پڑوس اور عزیز و اقارب کی پانی
کی ضرورت کو پوری کرنے لگا۔ یہ مہارت محلے کے دوسرے لوگ اپنی کم عقلی کے
سبب نہ اپناسکے۔ اب تمام نمازیوں کو بھرپور پانی میسر آنے کے شہادت سڑک کے
پانی سے بھرے چھوٹے بڑے گڑھے دینے لگے اور محلے کے کتے ان سے پانی پیتے
پیتے دعائیں دیکر آسمان کی طرف طنزیہ نظروں سے دیکھنے لگے جس پر سے گزشتہ
کئی ہفتوں سے بادل بن برسے ہی گزرتے رہے۔
ماہ رمضان کی خریداری تو پارلیمنٹ میں بل پاس کرانے
جیسی ہے۔ ہر تہوار ہر تو تمام دکانیں بھری نظر آتی ہیں۔ دیوالی کی رونق تو
اندھیرے دلوں میں بھی دیا جلادیتی ہیں۔ اور کرسمس، کرسمس کا تو کیا کہنا۔
سنٹا کلاز تو اب ہر عمر کا دکھائی دینے لگا ہے۔ دیوالی، ہولی، کرسمس
تہواروں سے متعلق تمام اشیاء آسانی سے ہر دکان میں ایک ہی چھت کے نیچے مل
جاتی ہیں۔ لیکن ماہ رمضان کئی دکانوں پر روزہ دار طواف کرکے حج کا ثواب
حاصل کرلیتا ہے۔ ادھر ہول سیل تاجروں نے یہ کہہ کر سیف سائڈ کرلی کہ رمضان
کی خریداری ہوتی ہی کیا ہے یہ تو صرف باغبانوں کا سیزن ہے۔ باقی کا کپڑا
کرانہ بھی کچھوے کی رفتار سے چلتا رہتا ہے۔ سال بھر جس سوکھے پھل کی کسی کو
یاد نہیں آتی وہ ماہ رمضان میں اچانک سب کی آنکھوں کا چاند بن کر آسمان پر
جاپہنچتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر انسان آسمان سے گر کر اسی میں اٹکا رہتا
ہے۔ رمضان میں اس کی قدر و منزلت دیکھنے سے بنتی ہے۔ نتیجتاً دکانوں سے
کھجور ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ روزہ دار کے لیے
پریشانی کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ جب وہ صبح کے وقت دکان پر کچھ خریدنے کے
لیے پہنچتا ہے تو دکانیں بند ملتی ہیں۔ کیونکہ سحر کے باقی ماندہ نیند کے
خرگوشوں کا صبح چھ تا گیارہ خواب میں ملاقات کرنا طے ہوتا ہے۔ قبل از ظہر
گھنٹہ بھر دکانیں کھلتی ہیں گاہکوں کے ہجوم کے باعث من چاہی خریداری ممکن
نہیں ہوسکتی۔ مسلم گاہکوں کے ساتھ مسلم دکانداروں کا طرز تغافل اور کچھ
بھوک پیاس کی جھنجھلاہٹ، زمانے کے ساتھ قدم بقدم نہ چلنے کی کوفت،
چاروناچار ہر طرح کی ڈنڈی مار مشقت ان سب کا ذمہ مالک خداوندی کو گردان کر،
اور ماہ رمضان کو نیک شگون جان کر پانچ بار مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن اس
کا دل کسی رمضان میں نہیں پسیجتا۔ سالہا سال ان دکانداروں کی حالت پلاس کے
تین پات ہی رہتی ہے اس کے برعکں کام دھندے کو عبادت کا درجہ دینے والے طبقہ
کی دکانیں وقت مقررہ پر کھلتی بند ہوتی نظر آئیں گی۔ ’’ مناسب دام سب کا
آرام‘‘ کے اصول پر عمل۔ بلاتفریق گاہک کو بھگوان سمان کے عقیدے پر ہر وقت
کار بند۔ نہ کسی طرح کی بے ایمانی نہ لاگ لپٹ۔ ہر چیز بروقت حاضر۔ دس
دکانوں کے چندے سے سامنے ہی بڑا سا شیو مندر ان پر اپنی مزید رحمت نچھاور
کرتا نظر آتا ہے۔ روزہ داروں سے زیادہ صحیح وقت افطار کا پتہ رکھنے والے یہ
دکاندار خود بھی ماہ رمضان کا احترام اور روزہ داروں کی بروقت خدمت کرکے
ثواب حاصل کرلیتے ہیں۔
کھجور دیتے دیتے رمانی انکل کہنے لگے کہ ’’وڑی سائیں۔ کیا زمانہ تھا وہ رمضان
میں ڈھول تاشے بجاکر اور قوالی گاگا کر تمام لوگوں کو سحری کے لیے جگایا
جاتا تھا۔ ہر طرف پوترواتاورن ہوتا تھا۔ بڑا ہی چندا لگتا تھا ان دنوں۔ اب
تو تم لوگ شادیوں میں بھی ڈھول تاشے نہیں بجاتے۔ پڑوسیوں تک کو پتہ نہیں
چلتا کہ شادی ہورہی ہے!‘‘ ہم نے اپنی مخروطی انگلیوں سے کان ہلاکر ساری
باتیں گراتے ہوئے کہا ’’آپ بھی انکل کیا پرانے قصے لے کر بیٹھ گئے۔ اچھا
ہوا نا رمضان کے ڈھول تاشے بند ہوگئے۔ صوتی آلودگی میں اضافہ نہ ہو یہ سوچ
کر روزہ داروں نے اپنے روزے قربان کردئیے۔‘‘
" ’’سائیں........ کیا تم لوگ ایک دوسرے کو موبائل پر رنگ کرکرکے ایک دوسرے
کو نہیں جگاسکتے ہو........یوں تو دن بھر کان کو موبائل لگاہی رہتا ہے.....
تھوڑا سحری کے وقت بھی اپنے بھائیوں کو بیل بجاکر جگادیا تو کیا ہوا..‘‘
’’یہ تو آپ نے صحیح کہا ۔پر گھنٹی بجائے کون؟؟؟ اور کس لیے؟ جن کے پاس
موبائل ہے وہ تو روزہ نہیں رکھتے اور جو روزہ رکھتے ہیں وہ موبائل رکھنے کی
سکت نہیں سکتے۔ ‘‘ یہ سوچتے سوچتے ہم چلدئیے۔
ماہ رمضان کی 29 اور 30 تاریخوں کو تو بھینس اور گائیں بھی جانتی ہیں کہ اسے
ہر گھر میں دودھ پہنچانا ہے جہاں شیر خرما بننے والا ہو۔ اس لیے ایک دن قبل
ہی بیچاریاں خود پیاسی رہ کر اپنے آدھے پانی سے بھرے برتن دودھ سے بھرنے کی
کوشش کرتی ہیں اور جگالی کرتی ہوئی آسمان میں چاند دیکھنے کی کوشش کرتی
رہتی ہیں۔درزیوں کی تو ان 29، 30 دنوں کی چاندی ہوتی ہے۔ چاند نہیں چاندی!
یہ لوگ تو چاہتے ہیں کہ چاند 31 دن بعد نظر آئے اور یہ آرام سے زیادہ سے
زیادہ سلائی کرسکیں۔ 29 ویں رات کو طلوع قمر کے ہونے یا نہ ہونے میں درزی
حضرات کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ ان کا نمائندہ مساجد میں عید کے اعلان سے قبل ہی
اپنی شاطرانہ چال چل دیتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ چاند تو بے
چارہ ازل سے ہی بدنام ہے۔ پہلے تو محبوب کا چہرہ بن کر شعراء کی نیندیں
حرام کرتا ہے۔
وہ عید کا چاند تھا کہ چہرہ تیرا بتا
میں بے خودی میں ایسے ہی گھنٹوں کھڑا رہا
یہ چاند کبھی روٹی بن کر کسی کی بھوک بڑھاتا ہے تو
کہیں چمکتے کھنکتے سکوں میں خود کو ڈھال کو سرکتا جاتا ہے۔ ماما بن کر کہیں
بچے اور اس کی ماں کو ننہیال و میکے کی یاد دلاتا ہے۔ کہیں کہیں تو بے رنگ
ہاتھوں میں اپنی رو پہلی حنائی کسک چھوڑ جاتا ہے جو عمر بھر تڑپاتی رہتی ہے۔
جب ساری دنیا عید منارہی ہوتی ہے تو اس مخروطی چاند کی ایک ایک کرن دل میں
نشتر بن کر اترتی ہے اور آنچل میں چمکتے موتی بکھیرتی ہے۔ اس وقت کوئی یہ
نہیں کہہ سکتا کہ چاند کا زمین سے رشتہ نہیں ہوتا۔ وہ خود سیاہ آسمان میں
تنہاہوکر زمین پر کئی تنہائیوں کا ساتھ نبھاتا ہے۔
عید آئی تم نہ آئے کیا مزہ ہے عید کا
عید ہی تو نام ہے ایک دوسرے کی دید کا
دکشت انکل کہنے لگے۔ ’’ارے آج بازار میں بڑی بھیڑ ہے۔ چاند رات تو دودن بعد
ہے نا؟‘‘ ہم نے کہا ’’پتہ نہیں انکل۔ اس دنیا کی ہر چیز موڈی ہے۔ کسی بات
کا بھروسہ نہیں کب کیا ہوجائے۔ کیا پتہ چاند 28 تاریخ کو نکل آئے۔ کچھ بھی
ہوسکتا ہے۔ آخر چاند کی اپنی بھی کوئی مرضی ہے۔‘‘ دکشت انکل ہنستے ہوئے
کہنے لگے ’’یہ بھی خوب ہے۔ تمہارا چاند محرم سے لے کر صفر تک پورے گیارہ
مہینے برابر تاریخوں پر نکلتا ہے پھر رمضان میں ہی کیوں گڑبڑ کرتا ہے؟ اور
تو اور یہ ماہ رمضان کا چاند ماہ شوال میں کیسے دکھائی دیتا ہے؟‘‘ ہم نے
سرد آہ بھر کر کہا ’’چاند کی مرضی .......‘‘
٭٭٭
Hajera Bano
, Aurangabad 431001 (M.S.) |