|
ڈاکٹر فاروق رحمان
مجھے پیار سے وہ بلاتا رہے گا بہانے بہانے ستاتا رہے گا ندی، جھیل، دریا ، جو چاہو ملا لو سمندر سمندر ہے کھارا رہے گا
اسے قید کر لو یا سنگسار کردو دوانہ سدا مسکراتا رہے گا تیرے غم کی گھٹری ذرا باندھ لوں میں مجھے راستے کا سہارا رہے گا تجھے میں پکاروں تو آے نہ آے ترا نام ہونٹوں پہ آتا رہے گا
جسے دسترس ہے تخیل پہ فاروق غزل خوب صورت سناتا رہے گا
گزرتے قافلوں کی دھول کو بدلی نہیں کہتے چمکتی ریت کو پیاسے کبھی پانی نہیں کہتے انہیں ہر حال میں عادت ہے الٹی بات کرنے کی کہ سورج کی شعاعوں کو بھی وہ سیدھی نہیں کہتے زمیں، زر، جان، یاری، رشتےداری سب فنا فی الله پرائی چیز کو دانا کبھی اپنی نہیں کہتے
امیر شہر سے کیا کیا شکایت بزدلوں کو ہے مگر جب سامنے آے تو وہ کچھ بھی نہیں کہتے
انھیں پتھر بنا ڈالا ہے ان کی بے ضمیری نے خدا کو ماننے والے خدا لگتی نہیں کہتے
گروہ بندی میں ہوں ان کی، نہ ان کا دوست ہوں فاروق غزل اچّھی بھی ہو تو وہ اسے اچّھی نہیں کہتے
دور تک سونی پڑی ہے رہگزر دیکھے گا کون اپنی منزل ہی نہیں تو راہبر دیکھے گا کون
چاندنی کی بدعا اپنا اثر دکھلا گئی کس قدر تاریکیاں ہیں چاند پر دیکھے گا کون
جاگتی آنکھوں پہ آخر نیند غالب آگئی اب تمہارا راستہ بھی رات بھر دیکھے گا کون
اپنے گھر کا ساز و ساماں ہم نے گروی رکھ دیا ہنستے ہنستے زھر پینے کا ہنر دیکھے گا کون
جان کا خطرہ تو ہے ہی جال بھی کمزور ہے مچھلیوں کے شوق میں پانی مگر دیکھے گا کون
جانے کتنی رنگ برنگی تتلیوں کا ساتھ ہے "اب کے رت بدلی توخوشبو کا سفر دیکھے گا کون "
اب غزل کے نام پر فاروق کچھ بھی پیش کر لوگ سب مصروف ہیں زیر و زبر دیکھے گا کون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر فاروق رحمان غزل انا گزیدہ فرشتے ملول ہوتے ہیں غزل ڈاکٹر فاروق رحمان نشانہ سادھے کماں میں ہے تیر رات گئے تیرے لبوں کی پکارے لکیر رات گئے عذاب ہونا ہے لازم بخیل بستی پر صدایئں دیتا ہے بھوکا فقیر رات گئے یہ تیرا حسن کسی تاج سے نہیں ہے کم تو اور لگتی ہے کچھ دل پذیر رات گئے جنون عشق سے ڈرتا ہے بپھرا دریا بھی گھڑے کی کشتی پہ نکلی ہے ہیر رات گئے دلوں کے زخموں پہ رکھتے ہیں پیار کا مرہم فلک سے آتے ہیں رب کے سفیر رات گئے میں ان سے دین کی دنیا کی باتیں کرتا ہوں کہ میرے خواب میں آتے ہیں پیر رات گئے تمام عیش کا ساماں ہے غم بھلانے کو ہماری فکر میں جاگے وزیر رات گئے جلا کے خون بھی اترے نہ شعر جب فاروق تو یاد آتے ہیں غالب و میر رات گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |