|
فرزانہ سحاب مرزا بےچینیوں کا کوئی مداوا نہ کر سکے ہم اس کے ہو گئے اسے اپنا نہ کر سکے ہر چند ہم نے چاہا اسے بھول جائیں گے کوشش کے باوجود بھی ایسا نہ کر سکے پلکوں پہ آنے دی نہ کوئی بوند شبنمی ہم اپنے آنسوؤں کو بھی رسوا نہ کر سکے وہ بھی ہماری یاد سے غافل نہ رہ سکا اور ہم بھی اپنے آپ کو تنہا نہ کر سکے ۔۔۔۔۔۔ آرزو تھی کہ دیکھیں گے گھر چاند کا ایک دن ہم کریں گے سفر چاند کا اس مسافر کے گھر جائیں کیسے بھلا کوئی کھڑکی نہ رستہ نہ در چاند کا وہ ستارہ تو ٹوٹا بکھر بھی گیا آج کوئی نہیں ہمسفر چاند کا |