فائر
فوکس
ہاجرہ بانو
انٹرنیٹ پر فائر فوکس کو دیکھتے ہی معاً خیال آیا کہ پوری دنیا کو گرفت میں
لینے کے لیے فوکس یعنی لومڑی سے بہتر کوئی اور حیوان ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ
تعالیٰ نے اسے کافی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جتنی ذہانت اس میں موجود ہے اتنی
ہی تیز رفتاری اس کے پیروں میں موجود۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اتنی ہی مکاری
میں آگے۔ کہتے ہیں کہ لومڑی سگ خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ خاندان سے تو اس
نے صرف جسمانی ساخت کو اپنایا ہے۔ وفاداری جیسی بیکار و احمقانہ صفت کو
بالائے طاق رکھنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس کے زرین نقش قدم پر انسان نے بھی
اپنے پیر رکھ دئیے تاکہ لومڑی تنہا یہ سعادت حاصل نہ کرسکے۔ چانکیہ نے
لومڑی کی ساری مہارتوں کو اپنایا اور رعایا کی بھلائی کے لیے استعمال کرکے
اپنا نام کرگیا۔ رفتہ رفتہ سارے سیاست داں بھی اسی روش کو اپناتے ہوئے اپنی
اپنی قوم و پارٹی کا نام روشن کرنے لگے۔ پھر وہ دور آیا کہ ان ہی حربوں کو
عوام کی بربادی کے لیے نہایت ہی مہذبانہ طریقے سے بروئے کار لایا جانے لگا۔
لومڑی کی ناک بھی بہت تیز ہوتی ہے۔ اپنے فوائد کی خوشبو بہت جلدی سونگھ
لیتی ہے۔لیکن سیمنٹ کانکریٹ کے جنگلوں نے کافی حد تک اس کی قوت شامہ کو
متاثر کردیا ہے۔ لیکن اس کا اسے ذرا بھی غم نہیں ہے کیونکہ یہ صفت سماج کے
خود ساختہ رہنماؤں نے لے لی ہے۔ ان کی ناک نے لومڑی کی ناک سے ہزار گنا
زیادہ طاقت و قوت سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ اب تو انسان ہر وہ کام کرنا
قابل فخر سمجھتا ہے جن میں اس کے ہاتھوں میں عوامی دولت سرخ لبادے میں لپٹی
ہوئی ہو۔ اس معاملے میں ہر کوئی ایک دوسرے سے بازی مار لے جانے کی فکر میں
ہے۔ میرے ہاتھ زیادہ بڑے یا تیرے۔ میں نے ہزاروں کے خون میں اپنے ہاتھ
ڈبوئے ہیں تو تو ابھی سیکڑوں تک بھی پہنچ نہیں پایا۔ ہمارا یہ تو دعویٰ ہے
کہ لومڑی نے بھی کبھی اپنے دانتوں سے ٹپکتے خون پر جشن نہیں منایا ہوگا
بلکہ اسے اپنی مجبوری اور قدرت کا نظام کہہ کر خون کے گھونٹ پی لیے ہوںگے۔
ایک نیتا جی دوسرے شہر کسی تقریب میں شرکت کی غرض سے بڑی عجلت میں جارہے
تھے۔ راستہ گھنے جنگل سے ہوکر گزرتا تھا۔ ڈرائیور بھی گاڑی فل اسپیڈ میں
زمین پر کم اور ہوا میں زیادہ چلا رہا تھا۔ اچانک ہی گاڑی کے ٹائر چرچرائے
اور پوری قوت سے بریک مارنے کے بعد جب گاڑی رکی تو استفسار پر پتہ چلا کہ
ایک لومڑی گاڑی کے آڑے آگئی۔ زیادہ جانی و مالی نقصان نہ لومڑی کا ہوا نہ
نیتاجی کا۔ بس پیر پر چوٹ لگنے سے لومڑی ٹائر کے قریب پڑی ڈری سہمی اٹھنے
کی کوشش کررہی تھی۔ نیتا جی گاڑی سے اترے اور لومڑی کو سہلایا اور مسکراتے
ہوئے اس سے ہاتھ ملایا اور واپس گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ڈرائیور حیران، لومڑی
پریشان اور یہ شعر برزبان:
جس سے کترا کے نکلتی رہی برسوں سر راہ
اس سے جو ہاتھ ملایا تو وہ اپنا نکلا
لومڑی اپنی رہائش کا انتظام زمین کو اندر تک کھود کر کرتی ہے۔ تاکہ دشمنوں
کے ہاتھ وہاں تک نہ پہنچ سکیں اور اپنے شاگردوں کو بھی یہ سبق اچھی طرح
پڑھادیا کہ اپنا سیاہ مال دور دور کی بینکوں میں ریزرو کردو کہ دشمن قانون
کے لمبے ہاتھ وہاں تک نہ پہنچ سکیں۔ شاگرد تو استاد سے ڈھائی ہاتھ آگے ہوتا
ہے۔ اس کی مہارت کی خبر دائیں سے بائیں ہاتھ تک بھی ناجاسکی۔ کئی شخصیتیں
تو چہرے مہرے سے ہوبہو لومڑی کی ذات شریف سے مماثلت رکھتی ہیں اور اوصاف
حمیدہ میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتیں۔ ان کے چہرے دیکھ کر فوراً پتہ چلتا
ہے کہ ڈارون کی تھیوری غلط کام کرگئی۔
لومڑی کی دم بہت خوبصورت ہوتی ہے۔ جس سے وہ اپنے گھر کی صفائی کا کام بھی
لیتی ہے۔ کیوں نہ کرے آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام بنانے کا ہنر جو بخوبی
جانتی ہے۔ اس صلاحیت سے اس کی نفاست جھلکتی ہے جو اس کی عیارانہ صلاحیت کو
مات کرتی ہے اور کبھی کبھی اس کو اجاگر کرنے کی کام بھی کرتی ہے۔
ایک دفعہ کوا اپنا شکار چونچ میں دبائے درخت پر بیٹھا تھا۔ شرافت سے مانگ
کر کھانا تو لومڑی کے خون کی توہین ہے۔ اس نے اپنی خوبصورت دم کو منہ میں
پکڑ کر زور زور سے چکر لگانے شروع کیے یہاں تک کہ کوا چکراکر درخت سے نیچے
گرپڑا اور لومڑی شکار دبوچ کر یہ جا وہ جا۔ اس واقعے کو کئی افراد نے سماج
میں عملی جامہ پہنا کر فخر کا تمغہ سینے پر سجایا ہے۔ جسے دیکھ کر چند بد
نصیب آخرت کی دہائی دیتے ہوئے مال تر سے محروم رہ گئے۔ خیر ان کی تعداد چند
ہے اور چند ہی رہے گی۔ اس سے فوکس ورلڈ کے نظام میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
وہ نہایت تزک و احتشام سے چلتی رہے گی۔ فائر فوکس نے بہت بڑے خطے پر قبضہ
جماہی لیا ہے۔ کہنا یہی ہے کہ فوکس کو کبھی تھکن محسوس نہیں کرنا چاہیے اور
اپنی عیاری و مکاری میں روزافزوں اضافہ کرنا چاہیے۔ ابھی تو بہت کچھ باقی
ہے۔
نہ تھک کے بیٹھ اے فوکس کہ تیری اڑان باقی ہے
زمین ختم ہوئی ہے ابھی آسمان باقی ہے
ہاجرہ بانو
. اورنگ آباد۔
ریاست مہاراشٹر
|