غالب کی
کہانی، حالات کی زبانی
ہاجرہ بانو
مرزا غالب کے داداقوقان بیگ شاہ عالم کے عہد میں سمر قند سے ہندوستان آئے
تھے۔ زبان تو ترکی تھی لیکن اس میں عربی و فارسی کی کثرت شامل تھی۔ اور آج
بھی یہی زبان ازبک اور تاتاری زبانوں میں اپنی مٹھاس گھولتی ہے۔ قوقان بیگ
نے جب دلی میں قدم رکھا تو وہاں سخت افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ امراء کی
کشمکش اور رسہ کشی جاری تھی۔ جن میں ایرانی و تورانی سرفہرست تھے۔ امیر
ایران نجف خاں ذوالفقار الدولہ کا پلڑا ذرا بھاری تھا۔ وہ خود بھی نووارد
مغلوں کی دل و جان سے قدر کرتا تھا۔ اس نے قوقان بیگ کو دلی کوئی سو
کلومیٹر پر ایک زرخیز پرگنہ پہا سوان کے اپنے اور رسالے کی تنخواہ کے لیے
سرکار کی جانب سے مقرر کردیا۔ لیکن یہ سرکاری عنایات صرف ان کی زندگی تک ہی
قائم رہی۔ ان کی آل اولاد اس سے کوئی استفادہ حاصل نہ کرسکی۔
قوقان بیگ کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹے نصر اللہ بیگ خاں نے
اپنے والد سے زیادہ عزت و حیثیت پائی۔ ان کی شادی حکومت دلی کے امیر نواب
احمد بخش کی بہن سے ہوئی تھی جو انگریز کمانڈر انچیف سے خاص تعلق رکھتے تھے۔
دوسرے بیٹے عبداللہ بیگ خاں سنجیدہ، مذہبی اور سیدھے سادے انسان تھے۔ ان کی
شادی آگرہ کے باعزت گھرانے میں ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ
سسرال میں ہی گزارا۔ وہاں سے لکھنؤ گئے اور پھر ملازمت اختیار کرلی۔ لیکن
وہاں کے شیعہ اثرات انہیں راس نہیں آئے تو انہوں نے ترک ملازمت کے بعد حیدر
آباد جانے کی ٹھان لی۔ یہاں امراء کی خانہ جنگی ان کی سادگی پر بھاری پڑی
اور انہوں نے دلی کے قریب ریاست الور کو اپنا مسکن بنالیا۔ ابھی برائے
ملازمت سرگرداں تھے ہی کہ ایک اندرونی معرکے میں کام آگئے۔ مرزا اسد اللہ
خاں غالبؔ عرف مرزا نوشہ ان ہی عبداللہ بیگ کے بیٹے تھے جن کی پیدائش آگرہ
میں 27 دسمبر 1797 کو ہوئی۔ عبداللہ بیگ کا جب انتقال ہوا تو غالبؔ کی عمر
صرف پانچ یا چھ سال کی تھی۔ چچا نصر اللہ بیگ خاں لاولد تھے۔ انہوں نے غالب
کی سرپرستی کی۔ غالبؔ ابھی عمر کے آٹھویں برس میں قدم رنجہ فرمانے ہی والے
تھے کہ نصر اللہ بیگ ایک لڑائی میں ہاتھی سے گر کر ہلاک ہوگئے چچا کی وراثت
تقسیم ہوتے ہوتے غالب کے حصے میں صرف سات سو750
روپے سالانہ آئے۔ نانا کی سرپرستی میں داخل ہوکر کئی سال آرام سے گزرے۔
نانا جاگیردارانہ حیثیت رکھتے تھے۔ ماں تعلیم یافتہ اور مذہبی، امور خانہ
داری میں ماہر خاتون تھیں۔ لیکن یہ بھی چار دن کی چاندنی ثابت ہوئی اور پھر
غالبؔ قرضداری کے بوجھ تلے دبتے گئے لیکن اپنی عالی نسبی پر فخر کرتے رہے۔
مرزا غالبؔ کو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ساری تعلیم گھر
پر ہوئی۔ؤ صرف بنیادی فارسی و عربی آگرہ کے ایک لائق مولوی محمد معظم کے
مکتب میں سیکھی۔ لیکن ان کے اطراف و اکناف اہل علم کا سمندر تھا۔ ’’گلاب
خانہ‘‘ محلہ اس وقت فارسی زبان کا مرکز کہلاتا تھا۔ غالبؔ کے خطوط سے اس
بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے محلے اور اہل علم سے بڑی عقیدت
رکھتے تھے۔
فارسی زبان سے لگاؤ غالب کو ان کے بچپن سے ہی تھا۔ اس ضمن میں ایک موقع پر
انہوں نے لکھا بھی ہے کہ مجھ میں فارسی کا ذوق ایسے بھرا جیسے فولاد میں
جوہر۔ اس لیے دس برس کی عمر میں فارسی میں اشعار کہہ لینا کسی اور کے لیے
تو ناممکن تھا لیکن غالبؔ کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ عربی اور دینیات سے
متعلق ان کی دلچسپی کم ہی نظر آئی۔
ان کے پاس فہم و ادراک کا ایسا سمندر تھا کہ کبھی اساتذہ کی خدمت کرنے یا
اصلاح لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ پدرانہ شفقت
اور استادانہ اصلاح ان کی قسمت میں نہیں تھی۔
میرؔ نے جب اس بارہ تیرہ سالہ لڑکے کا کلام دیکھا تو کہا تھا ’’اگر اس لڑکے
کو کوئی کامل استاد مل گیا اور اس نے اس کو سیدھے راستے پر ڈال دیا تو
لاجواب شاعر بن جائے گا ورنہ مہمل بکنے لگے گا۔‘‘
’’بے استادے‘‘ کہنے والوں کا منہ بند کرنے کے لیے غالب نے ایک پارسی استاد
ہرمزد (عبدالصمد) کا نام مشہور کردیا اور بتایا کہ دو برس انہوں نے غالب کے
گھر پر رہ کر انہیں قدیم فارسی کی تعلیم دی اور ادب کے باریک نکات سے آگاہ
کیا۔ لیکن بعد میں غالبؔ کے مختلف بیانات کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہرمزد
ایک فرضی نام تھا۔
غالب نے ابھی عمر کا تیرہواں سال بھی پورا نہیں کیا تھا کہ چچا کے سسرال
میں ہی ان کی شادی طئے کردی گئی۔ فیروز پور، جھرکہ اور لوہارو ریاستوں کے
والی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی نواب الٰہی بخش معروف جو دلی میں سکونت
اختیار کیے ہوئے تھے۔ ان کی اپنی تو کوئی جاگیر نہ تھی، بڑے بھائی ہی
باحیثیت تھے۔ لیکن شعر و سخن، علم و فضل اور مذہب و تصوف میں کوئی ان کا
ہاتھ نہیں پکڑ سکتا تھا۔ الٰہی بخش کی بیٹی امراؤ بیگم گیارہ سال کی ہی
تھیں کہ غالبؔ سے رشتہ ازدواج میں بندھ گئیں۔ وہ عبادت گزار، مذہبی اور
خانہ داری میں ماہر خاتون تھیں۔ غالبؔ کے ساتھ ان کی ہم آہنگی کبھی قائم نہ
ہوسکی۔ عاشق شرابی شوہر کے ساتھ ہر وقت عقبیٰ کی فکر کرنے والی عورت کیسے
گزربسر کرسکتی تھی۔ اولاد بھی دو سال سے زیادہ نہ جی سکی جو امراؤ بیگم کا
سہارا بن سکتی۔ غالبؔ نے اپنے ازدواجی رشتہ کو ہمیشہ بوجھ سمجھا اور کوچہ
جاناں کی تلاش میں خاک چھانتے رہے۔ 1858ء کے ایک خط میں اس بات کا برملا
اعتراف انہوں نے کیا کہ ’’........... تاہل میری موت ہے۔ میں کبھی اس
گرفتاری سے خوش نہیں رہا۔ ساری زندگی اسی چپقلش میں گزری اور سارا انہماک
شعر کی زلف سنوارنے میں لگ گیا۔‘‘ اور یہیں سے اردو ادب کو ایسا عظیم شاعر
ملا جس کے رگ رگ سے مصرعوں کے موتی ٹپکتے تھے۔
اپنے دل کے دکھ سمیٹ کر یہ گراں قدر شاعر ۱۵ فروری ۱۹۳۰ء کو اس دنیا سے
رخصت ہوگیا۔
٭٭٭٭٭
ہاجرہ بانو
اورنگ آباد۔۔ ریاست مہاراشٹر
|