سجاد حیدر یلدرم کی زندگی
اور شاعری
ہاجرہ بانو
یلدرم کے
خاندان کو ان سارے عناصر پر فخر حاصل تھا جو ایک زمانے میں اشرف المخلوقات
کا اعلیٰ معیار سمجھے جاتے تھے۔ میری مراد تہذیب، تمیز، شرافت اور نفس سے
ہے۔ سد حسن ترمزی یلدرم کے نگر سگر دادا تھے۔ جو ترمز، وسط ایشیا سے
ہندوستان آئے۔ یہ وہی ترمز ہے جو ترکستان کے نقشے میں اپنا ایک نمایاں مقام
رکھتا ہے۔ علم، فہم و فراست کی نہریں اس گھرانے کی ایک نسل سے دوسری نسل
میں بہتی چلی گئیں۔ یہ ساتے افراد و خاندان جید عالم تھے جن میں روایتی
مولویوں کی دور دور تک رمق موجود نہیں تھی۔ یہی سبب تھا کہ قوی علمیت کے
ساتھ ساتھ زندگی کا حسن بھی برقرار تھا۔ اسی گھرانے کی ایک بی بی سیدہ ام
مریم نے قرآن شریف کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ ان ہی کے قدموں تلے
سجاد حیدر یلدرم کی جنت تھی۔ قصبہ نہٹو ضلع بجنور کی مٹی کو سجاد کا وطن
کہلانے کا شرف حاصل ہوا۔ ۱۸۵۷ء کے غدر میں یلدرم کے دادا میر احمد علی نے
زور شور سے انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ نتیجتاً جاگیر سے ہاتھ دھونا
پڑا اور زوال کے ہاتھوں کو گلے لگانا پڑا۔ نئی نسل نے انگریزی زبان سے
مستفید ہوکر سرکاری ملازمتوں کے لیے خود کو کمربستہ کرلیا۔ جن میں یلدرم کے
والد محترم بزرگوار اور چچا قبلہ پیش پیش تھے۔ یلدرم کے والد خان بہادر سید
جلال الدین حیدر شہر بنارس کے حاکم تھے۔ جن کے رعب و دبدبے سے سارا بنارس
تھر تھر کانپتا تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی یعنی یلدرم کے چچا خان بہادر ڈاکٹر
کرار حیدر ریاست اترپردیش میں سول سرجن کے عہدہ پر فائز تھے اور انیسویں
صدی کے آخر میں صوبے کے مشہور ڈاکٹرس میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ لیکن افسوس
کے ۱۸۹۶ء میں رائے بریلی میں گھوڑے سے گر کر وہ رب حقیقی سے جاملے۔ یلدرم
کی پیدائش ۱۸۸۰ء میں ہوئی۔ بہن بھائیوں کے ساتھ گنگا ندی کے کنارے کھیلتے
ہوئے اپنا بچپن گزرا۔ والد کی شفقت کے حصہ دار وہ بھی تھے۔ شفقت و محبت کے
ساتھ فلسفے کے نکتے بھی والد کی جانب سے رگ و پے میں سرایت کرتے چلے گئے۔
والد نے اپنی اولاد کو زندگی کا سب سے اول درس یہ دیا کہ بندگان خدا کی دل
آزاری گناہ عظیم ہے۔ یلدرم اور ان کے تینوں بھائیوں کی زندگی اس نصیحت کی
کامل تفسیر ہیں۔
سجاد حیدر یلدرم نے اپنی ساری زندگی خاموشی اور نہایت نرم روی سے گزاری۔ انا
تو سب کی کمزوری ہوتی ہے۔ اس لیے اس خاندان کی بھی تھی۔ لیکن فنکار کے لیے
یہی انا کبھی کبھی امرت سمان ہوتی ہے۔ لیکن سجاد حیدر فنکار ہونے کے ساتھ
ساتھ انا کے حصار میں نہیں تھے۔ زمانہ طالب علمی سے انہیں ترکی سے گہرا
لگاؤ ہوگیا تھا۔ ایل ایل بی کی تعلیم کے دوران برطانوی فارن آفس سے کسی نے
ان کے ایک انگریز پروفیسر کو لکھا کہ بغداد کے برطانوی قونصل خانہ کے لیے
ترکی زبان کے ترجمان کی ضرورت ہے۔ پروفیسر نے ان سے ذکر کیا۔ سجاد حیدر نے
موقع غنیمت کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور فوراً ترکی کے لیے رخت سفر
باندھا۔
زندگی کے اس ٹرننگ پوائنٹ پر انہوں نے ترکی ادب کی طرف اپنی تمام تر توجہ
مرکوز کردی۔ ۱۹۰۲ء میں انہوں نے احمد حکمت کے ایک ناول ’’ثالث بالخیر‘‘ کا
ترجمہ کیا۔ کتاب کے شروع میں ۴/اگست ۱۹۰۲ء کی تاریخ کے ساتھ ’’التماس مترجم‘‘
کے عنوان سے یلدرم نے تحریر کیا کہ:
’’میں اس ترجمہ کو بہت دھوم دھڑاکے سے پیش نہیں کرنا چاہتا اور نہ اس جرم کی
معافی چاہتا ہوں کہ میں نے ناول کا ترجمہ کیا اور اس طرح پبلک کے مذاق کو
ایک مضر شئے کی طرف راغب کیا۔ قصوں کے ترجمے آج کل بہت ہورہے ہیں۔ مگر سب
انگریزی سے اور اس کے عرض کرنے کی ضرورت نہیں کہ انگریزی سے بھی کس قسم کے
ناولوں کے ترجمے ہورہے ہیں۔ میری تمنا یہ تھی کہ کسی طرح ترکوں کے قصے
ترجمہ ہوں۔ اس سے نہ صرف ہمارے ناولوں کے لٹریچر میں ایک نئے باب کا اضافہ
ہوگا بلکہ ترکوں کی سوشل زندگی کا اصلی نقشہ بھی ہمیں نظر آجائے گا۔ ترکوں
کی سوشل زندگی کی تصویر میں اردو میں اس لیے ضروری سمجھتا تھا کہ ہماری
سوسائٹی اور طرز معاشرت میں جو انقلاب پیش آرہا ہے وہ انہیں بھی پیش آچکا
ہے۔ اس وجہ سے ہمیں اس نقشے سے معلوم ہوجائے گا کہ اس منزل سے وہ کس طرح
گزرے ہیں اور اب کہاں ہیں۔ ترجمہ اکھڑا اکھڑا اور انوکھا معلوم ہوگا مگر
ترکوں کا طرز ادا مجھے کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے اور مغربی اور ایشیائی طرز
تحریر کا ایسا معقول میل ہے کہ میں نے لفظی تجرمے کی کوشش کی ہے۔ گفتگو تو
ضرور انوکھی ہے۔ لیکن سنئے تو سہی۔
غریب شہر سخن ہائے گفتنی وارد‘‘
سجاد یلدرم کی رومانیت بھی ترکستانہ تھی۔ انہیں پس چلمن معشوق کے جلوے گراں
گزرتے تھے۔ ان کی معشوق تو ساحل سمندر پر اٹکھیلیاں کرنے والی تھی۔ وہ عورت
کو مرد کے شانہ بشانہ دیکھنا چاہتے تھے۔ انہیں لکھنو اور دلی کی چار
دیواریاں رومانیت کی ترقی کو روندتی محسوس ہوتی تھیں۔ کھلی فضاؤں میں
قلانچیں بھرنے والی رعنائیاں خوشبودار لگتی تھیں۔ یہی سبب تھا کہ انہوں نے
ہندوستان سے باہر ترکی کو ہی اپنا مثالی مسکن قرار دیا۔ ایران و مصر تو
پسماندہ تھے۔ترکی میں یوروپین اقوام کے قرب کی وجہ سے زندگی کی لہر تیز
ہوچکی تھی۔ یلدرم نے جن ترکی ڈراموں کا ترجمہ کرکے ان کے زنانہ کرداروں کو
اردو والوں سے روشناس کرایا مثلاً زہرہ، حمراء، قمراء، بہیجہ وغیرہ ان سے
اندازہ ہوتا ہے کہ یہ یلدرم کی آئیڈیل لڑکیاں تھیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ
وہ آزادی نسواں کے قائل تھے۔ اسی خیال کو عبدالقادر کی ایک تحریر سے تقویت
ملتی ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ:
’’۱۹۰۷ء میں مسلمانوں کی تعلیمی کانفرنس کراچی میں منعقد ہورہی تھی جس کے صدر
اس سال مولانا حال تھے اور سجاد حیدر بھی اس میں شریک تھے۔ ایک دن جب میں
جلسے کے بعد اپنی قیام گاہ کے قریب جارہا تھا تو سامنے سے سجاد آتے نظر آئے۔
مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کئی ایک چکر اپنے گرد لگائے جیسے خوشی سے رقص
کررہے ہوں۔ مجھ سے کہنے لگے کہ کچھ نہ پوچھئے میرا دماغ اس وقت آسمان پر ہے
اور میں زمین پر کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ میں نے پوچھا کہ کچھ تو
بتاؤ کیا دیکھا ہے۔ کہنے لگے ’’ایک ایسی خاتون سے مل کر آرہا ہوں جو آزادی
کی حامی ہیں اور خود آزادی پر عامل ہیں۔‘‘
سجاد یلدرم نے ۱۹۱۲ء میں شادی کی۔ یہ تھیں خان بہادر سید نذر الباقر کی لڑکی
نذر زہرا بیگم۔ جن کی پھوپھی نے ایک معاشرتی ناول ’’گودڑ کا لال‘‘ تصنیف
کیا تھا۔ نذر زہرا بیگم کے پھوپھی زاد بھائی اور بہنوئی میر فضل علی ایک
صاحب طرز ادیب تھے، ان کی کتاب ’’تخیلات‘‘ اب نایاب ہے۔ نذر زہرا بیگم مس
نذر الباقر کے نام سے لڑکپن ہی سے نامور مضمون نگار بن چکی تھیں۔ ۱۹۰۸ء میں
بچوں کے مشہور اخبار پھول کی ایڈیٹر بھی تھیں جو شمس العلماء مولوی ممتاز
علی کے دارالاشاعت پنجاب لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ اسی زمانے میں انہوں نے
بچوں کے لیے تین مقبول کتابیں ’’پھولوں کا ہار‘‘، ’’سلیم کی کہانی‘‘ اور
’’دکھ بھری کہانی‘‘ لکھیں۔ ان کا مشہور ناول ’’اختر النساء بیگم‘‘ ۱۹۱۰ء
میں شائع ہوا جب وہ صرف سولہ سال کی تھیں۔ ان کے مضامین نیرنگ خیال، زمانہ،
تمدن، ادیب، انقلاب اور الناظر میں شائع ہوئے۔ ان کا انگریزی ترجمہ ٹائمز
آف انڈیا میں چھپا اور بمبئی و مدراس کے انگریزی اخباروں کی طرف سے کئی
انعامات ملے۔ تہذیب النسوان میں چھپے مضمون پر تو مہارانی بڑودہ نے انہیں
تمغہ عطا کیا۔ ان کی قومی پرستی سے متاثر ہوکر ہزہائی نس سلطان جہاں بیگم
فرمانروائے بھوپال کی خواہش تھی کہ نذر زہرا بیگم جیسی ذہین لڑکی ان کی
سیکرٹری بن جائے۔ لیکن باوجود اپنی روشن خیالی کے سید نذر الباقر اس کی
اجازت نہ دے سکے۔
[ یلدرم سے شادی کے بعد انہوں نے دہرہ دون میں لڑکیوں کا انگریزی اسکول
قائم کیا اور تصنیف و تالیف کا بھی مشغلہ جاری رکھا۔ مسلم گرلز اسکول علی
گڑھ اور کرامت حسین گرلز اسکول لکھنو کے قیام کے سلسلے میں بہت کام کیا۔ آل
انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس قائم کی۔
یلدرم ترکوں کے لہجے میں ترکی اور ایرانیوں کے لہجے میں ایرانی بولتے تھے۔
عربی بھی روانی اور شگفتگی سے بولتے تھے۔ انہوں نے مغربی طرز کی زندگی
گزاری لیکن جدید ’’کلب لائف‘‘ اور حد سے زیادہ مغربیت زدہ خواتین انہیں
ناپسند تھیں۔ خود پکے مذہبی لیکن مذہبی تنگ نظری کو بہت بڑا اخلاقی جرم
تصور کرتے تھے۔ مختلف مذاہب کے فلسفوں پر ان کا مطالعہ بہت گہرا تھا۔ ان ہی
اوصاف حمیدہ سے متصف ان کی دختر قرۃ العین حیدر تھیں۔
p[L:1][L:0][L:0] سجاد یلدرم کی ایک نظم جو ان کی رنگینی رسائی طبع سیرت کی
پاکیزگی اور ان کے نقطہ نظر کی دلآویزی کی ترجمان ہے۔ شملہ کالکا لائن پر
ایک نظارے کے عنوان سے سب سے پہلے ’’سہیل‘‘ میں شائع ہوئی۔
ماتھے پہ بندی
آنکھ میں جادو
ہونٹوں کی بجلی
گرتی تھی ہر سو
چل لچکتی
بات لہکتی
]جیسے کسی نے
پی ہو دارو
انکھڑیاں ایسی
جن میں تھے رقصاں
لمحے میں رادھاؔ
لمحے میں راہوؔ
ایسی پھڑکتی!
خلق تھی حیران!
ریل پر آیا
کہاں سے آہو؟
لکھنو کے ٹریننگ کالج کے مشاعرے کی تیسری بار صدارت کرتے ہوئے درج ذیل نظم
پڑھی اور آئندہ کے لیے صدارت سے معافی مانگی۔
کیوں مجھ کو کیا ہے صدر مجلس
کیوں مجھ کو عطا ہوئی یہ جاگیر!
جب دیکھئے تخت پر ہوں بیٹھا
منبر پہ ہو جیسے واعظِ پیر!
مانا کہ ہے میرا نالہ دلکش
ہے دل میں تڑپ، زبان میں تاثیر
رنگینی بھی ہے سخن میں ایسی
ہوتا ہے جو ان عالم پیر
ہے تو سن طبع شوخ و طرار
چال اس کی کڑی کماں کا تیر
لیکن نہیں شاعری کا دعویٰ
ہاس نثر میں کچھ کیا ہے تحریر
یہ شوخی محض ہے وگرنہ
کیا ہیچمدان کی ہیچ تحریر
ہوں شاہد شعر کا میں شیدا
بس اسلئے ہے میری یہ توقیر
صدر نہ سچی نوجواناں
یک قصر ادب شدست تعمیر
اس بزم میں ایک ادیب کہنہ
کیوں لائے ہیں آپ بہر تشہیر!
تھا گوشۂ انزوا میں مخفی
کیوں کھینچ کے لائے پابہ زنجیر
ممنون کرم ہوں لیکن اب تو
ہے تیسری مرتبہ یہ تعزیر
رسم رست کہ شائقین تحریر
آزاد کنند بندۂ پیر
سجاد حیدر یلدرم اس معنی
میں شاعر نہیں تھے کہ وہ بڑے بڑے مشاعروں میں داد سخن حاصل کرتے اور صاحب
دیوان ہوتے۔ لیکن اس معنی میں شاعر ضرور تھے کہ شعر کہتے تھے اور اچھا کہتے
تھے۔ ان کا تو سن طبع جس طرح نثر میں شوخ و طرار تھا اسی طرح نظم میں بھی
ہوا سے باتیں کرتا تھا۔
’’خطابِ نوجوانان‘‘ کے عنوان سے ۱۹ دسمبر ۱۹۴۰ء کو انہوں
نے ایک نظم لکھی جس میں شاعر، ادیب و اہل قلم کی زندگی کو ناکام اس لیے
دکھایا گیا ہے کہ ان لوگوں نے علم کو عقل سے جدا کردیا۔
میدان جدوجہد میں اے نوجوان اڑ
کب تک پڑے رہو گے یونہی کوئے یار
میں
کب تک قتیل دلبری شاہد سخن
مانا کشش بلا کی ہے اس سحر کار
میں
میں جانتا ہوں تشنہ ذوق سخن ہے
کیا
مدہوش رہ چکا ہوں میں اس کے خمار
میں
دنیائے حسن و عشق ہی پیش نظر رہے
داخل ہوا نہ زیست کے میں کار زار
میں
بیٹھا رہا تصور جاناں کیے ہوئے
غالب کا میں شریک رہا انتظار میں
آہ و فغاں و نالہ تھا سرمایہ
حیات
حسرت ہی جاگزیں تھی دل داغدار
میں
میں انقلاب چرخ کا قائل رہا مگر
منکر کہ انقلاب بھی ہے روزگار
میں
جاگا تو دیکھا زیست ہے اہل عمل
کی زیست
شاعر ہے کوئے یار میں وہ کارزار
میں
انہیں اپنی نثر کا احساس تو تھا لیکن اپنی شاعری کا اعتراف نہ تھا۔ اپنے
مخصوص منکسرانہ انداز میں فرماتے ہیں:
لیکن نہیں شاعری کا دعویٰ
ہاس نثر میں کچھ کیا ہے تحریر
یہ شوخی محض ہے وگرنہ
کیا ہیچمدان کی ہیچ تحریر کلام یلدرم میں شامل عنوانات یہ تھے۔ سرسید احمد
خاں، غزل (اردو فارسی)، عائشہ صدیقہ کے عقد کے موقع پر، عذرا حیدر کے نکاح
کے موقع پر، عذرا و سعید، امتیاز حیدر کی شادی پر، حج کے بعد، ساون، آسمان،
تاج و حجاب، مرثیہ، داغ، کشمیر و حسن کشمیر، مرزا پھویا علی گڑھ کالج میں،
شملہ کالکا ریلوے پر ایک نظارہ، نغمہ حسرت، ایک نکاح ثانی پر، جرأت رندانہ،
ایک درخواست، دعا (ایک ناکتخدا عزیزہ کے لیے جو اس آٹوگراف البم میں لکھی
گئی)، رخصت شباب، سعید خود اختیاری، اپنی بھتیجی کی کہ خدائی کے موقع پر،
نذر خواجگان (خواجہ منظور حسین اور خواجہ غلام السیدین کے اساتذہ جامع علی
گڑھ مقرر ہونے پر) ایک بت پرست محمود، (نظم بہ تسریب شادی خانہ آبادی جناب
خواجہ غلام السیدین) دیکھا نظارہ ہم نے تمہارا (ٹرین میں ایک ہمسفر عائلہ (فیملی)
کی مسرت دیکھ کر) ترانہ شوق، بلبل از ترکی، لکھنو ٹریننگ کالج کے مشاعرہ کی
صدارتی نظم، عزم حجاز، کعبے کے سامنے، شہیدان سیاست، علی گڑہ مسلم
یونیورسٹی، نوجوان سے، ثروت آراء (مرحومہ ہمشیرہ نذر سجاد صاحبہ کی یاد میں)،
ہم دم دیرینہ (سر محمد یعقوب کی یاد میں) ایک غم زدہ دوست کے نام، عقدۂ
لاینحل، نواب صاحب چھتاری کے نام، (دولت آصفیہ کی وزارت سے سرفراز ہونے پر)
فردیات۔
سجاد حیدر یلدرم ۱۱/ اپریل ۱۹۴۳ء کو رات کے دو بجے حرکت
قلب بند ہونے سے دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اس وقت وہ بالکل تندرست تھے اور
کچھ عرصہ قبل ہی افغانستان میں چند ماہ گزارکر آئے تھے۔ ان کی یہ تمنا بھی
پوری ہوگئی کہ ان کے آخری وقت میں باعث علالت دوسروں کو پریشانی نہ ہو۔
انہیں لکھنو کے عیش باغ میں سپرد خاک کیا گیا۔
٭٭٭٭
ہاجرہ بانو
اورنگ آباد
ریاست مہاراشٹر-
|