|
غلام فرید کاٹھیا " لمحوں کی قید" میں رضاالحق صدیقی پریم چند کے بعد احمد ندیم قاسمی کے دھرتی پسند ہونے کے تسلسل میں غلام فرید کاٹھیا کے اوائلی افسانوی مجموعے "لمحوں کی قید" کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے یوں لگا کہ ان کے یہاں پریم چند، ہاجرہ مسرور، قرہ العین حیدر اور احمد ندیم قاسمی کے فن اور اسلوب کے لئے علیحدہ علیحدہ وجوہات کی بنا پر زوردار چا ہت موجود ہے .غلام فرید کاٹھیا کا افسانہ حقیقت نگاری اور دیہی پس منظر میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے.اپنی دھرتی سے پیار غلام فرید کاٹھیا کے خمیر میں شامل ہے غلام فرید کاٹھیا کا تعلق ساھیوال کے ایک زمیندار گھرانے سے ہے.اپنی کلاس کے رویوں کے برعکس احساس محرومی میں مبتلا طبقے کے مسائل کو انہوں نے بڑے قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے. انہوں نے دیہی علاقے میں رہنے والوں کے مصائب کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے. گاوں کی ثقافت کے عناصر نے ان کے تخلیقی جوہر ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے .اپنے کہانی کار ہونے کے حوالے سے غلام فرید کاٹھیا کاکہنا ہے کہ" میں ایک زمیندار، سیاست کار ہوں فقط ایک سیاسی کارکن- لکھنے کا شوق بچپن سے ہو گیا اور لکھتا رہا. چھپنے کے میدان میں زیادہ تر اجنبی رہا. اقبال صلاح الدین(مرحوم) نے نثر کی طرف لگایا کہ " نثر پر کام نہیں ہو رہا". یہ میری کہانیوں کا پہلا مجموعہ ہے جو لکھی تو گئیں بیسویں صدی کے آخر میں لیکن چھپ اب رہی ہیں اور میرا ماننا ہے کہ ادب کبھی پرانا نہیں ہوتا " .بنیادی طور پر غلام فرید کاٹھیا دیہی زندگی کے نشیب و فراز سے بخوبی واقف ہونے کی بنا پر " لمحوں کی قید " کے کرداروں کی نفسیات کی جزئیات میں گم ہو جاتے ہیں. گہرا مشاہدہ ان کی کہانیوں کا خاصہ ہے . لمحوں کی قید ایک جگہ وہ لکھتے ہیں " رہائی پانے والے دوسرے تمام قیدی ایک ایک کر کے بڑے پھاٹک کی کھڑکی سے سر جھکا کر باہر جاتے رہے---- آو تو سر جھکاو---- جاو تو سر جھکاو- جیل کی مستقل ریت ہر کسی کو نبھانا پڑتی ہے سوائے ان کے جن کے لئے جیل کا بڑا پھاٹک کھلتا ہے " .غلام فرید کاٹھیا کے ذھن میں کہانی " لمحوں کی قید " لکھتے ہوئے یقینا ایک ناول کا پلاٹ تھا جسے وہ اپنی سیاسی زندگی کی مصروفیات کی بنا پر محدود کر گئے .غلام فرید کاٹھیا کی کہانیوں میں جہاں اقتصادی عوامل اور ان کا باعث بننے والےجاگیردار کے کردار اجاگر ہوئے ہیں وہیں بے بس دیہاتی بھی ردعمل ظاہر کرتا نظر آتا ہے. کہانی "لمحوں کی قید" اس انداز کی بہت اچھی مثال پیش کرتی ہے .اس مجموعے کی چند کہانیوں کے علاوہ 6 کہانیاں قانون، انصاف، سماجی مسائل، محرکات جرم اور جیل کے اندرونی ماحول کے مشاہداتی جائزے پر مشتمل ہیں ." سوچوں کی آگ " کا کم تنخواہ دار بوڑھا وارڈن فضل اپنی بیٹی کا علاجکرانے سے قاصر ہے جیل میں ایک رحم دل قیدی اس کی بیٹی کے علاج کے لئے اس کی مدد کرتا ہے.قیدی کی رہائی کا سن کر وارڈن خوش ہونے کی بجائے اداس اور متفکر ہو جاتا ہے.کیوں ؟ یہی اس کہانی کو کہانی بناتا ہے ." دیوانے لوگ " کا کردار عابو ایک مثالی مزدور کے طور پر سامنے آیا ہےجبکہ ٹھکیکیدار ، اورسیئر اور جیل وارڈن سب رشوت اور کمیشن خور اور منفی سوچ کی حامل قوتیں ہیں جو محنت کشوں کا استحصال کرتی ہیں ." زندگی اے زندگی " میں قفس کے پر تعفن اور تاریک ماحول میں بھی فطرت کیقدرت اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آتی ہے ." اندھیروں کا رقص " ہاجرہ مسرور کے افسانے " چراغ کی لو " سے مماثل اوراس کی تخلیقی فضا کے قریب ہے .غلام فرید کاٹھیا کی کہانیاں " ہیلو ہائے " ، "ڈائریکٹر جنرل" اور " کل اور آج " مین یونیورسٹی کی زندگی اور وہاں بنتے بگڑتے رشتوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ان کہانیوں میں شرمیلا مرد نت نئے رنگ میں سامنے آتا ہے ان سب کہانیوں کے مردوں میں جذباتی تعلق کے اظہار کا فقدان ہے جبکہ عورت زیادہ ایگریسیو( ) رویے کی غماز ہے .ان کہانیوں میں ایک جذباتی تعلق اظہار کے بھاری پتھر تلے دب کر اداسی کا گہرا اثر چھوڑتا ہے .لمحوں کی قید کے دیباچے میں اصغر علی بلوچ کہانیوں کا موضوعاتی جائزہ لینے کے بعد لکھا ہے کہ " یہ حقیقت واضح ہے کہ غلام فرید کاتھیا کے ہاں زندگی کی متنوع اشکال موجود ہیں . وہ کہانی کہتا ہی نہیں ،کہانی میں سانس لیتا ہے . یس کی کہانیاں جیتی جاگتی زندگی پیش کرتی ہیں جن میں ہمارے اپنے کردار اور جذبات پائے جاتے ہیں" جبکہ محمد حمید شاہد تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں "میں یہ نہیں کہوں گا کہ غلام فرید کی کہانی تنوع ہے .ابھی اسے بہت سے نئے موضوعات پر لکھنا ہے. نئے نئے کرداروں کو تلاش کرنا ہے .اور زندگی کو نئے دریچوں سے دیکھنا ہے . منشا یاد کا کہنا ہے کہ " مہر غلام فرید کاتھیا کی اولین کہانیاں پڑھتے ہوئے کسی کچے پن کا تاثر ہرگز نہیں ابھرتا . ان کی فکر اور اظہار و بیاں میں پختگی کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے وہ ایک عرصے سے کہانیاں لکھ رہے ہوں " .منشا یاد ذاتی طور پر غلام فرید کاٹھیا کو شاید نہیں جانتے لیکن ان کے ایک جان کار کی حیثیت سے اگر میں یہ کہوں کہ واقعی ان کی کہانی نویسی 3 دھائیوں پر پھیلی ہوئی ہے تو بے جا نہ ہو گا ہاں ہی الگ بات ہے کہ افسانہ/کہانی لکھنا ان کا اوڑھنا بچھونا نہیں ہے کیونکہ ان کی شخصیت میں زمینداری اور سیاست کاری پہلے ہے افسانہ نگاری بعد میں. ان کی یہ کہانیاں فرصت کے لمحے میسر آنے کے دنوں کی دین ہیں .آخر میں مجھے یہ کہنا ہے کہ مشاہدہ اور مطالعہ تو ان کا وسیع ہے ہی اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنی کہانی کاری کی صلاحیت کو زنگ نہ لگنے دیں اور وقت نکال کر لمحون کی قید جیسے افسانے ضرور تخلیق کریں جہاں زندگی کے بے رحم عناصر کے ہاتھوں انسانیت کی تذلیل پر ان کے اندر کا تخلیق کار جذبات اور احساسات کا اظہار کرتا رہے۔۔. |