Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

تاروں کے جھروکوں تک
ہاجرہ بانو  
 ...ریاست مہاراشٹر

  ۔۱۸مئی ۱۹۲۲ء ضلع سرگودھا پنجاب میں جنمے انگریزوں کی سی شباہت رکھنے والے وزیر آغا۔ والدین نے گمان بھی نہ کیا ہوگا کہ وہ اپنے نحیف سے سپوت کی وجہ سے جانے جائیں گے۔ یوں تو اردو ادب کی سنہری راہیں ہزاروں ادباء کے نقش قدم سے مزین ہے۔ لیکن وزیر آغا کی تحریر کی بات ہی نرالی ہے۔ جس میں انکساری اور مادری زبان کی شیرینی، لطافت اور شگفتگی صاف جھلکتی ہے۔ یوں تو میں نے کئی آپ بیتیاں پڑھی ہیں کہیں مبالغہ آرائی سر پھوڑتی نظر ائی تو کہیں آپ بیتی میں تم بیتی، ہم بیتی اور جگ بیتی کا ٹھاٹیں مارتا سمندر نظر آیا۔ کہیں ادب پر اپنی شخصیت کا سایہ منڈلانے کی کوشش میں ادبی تقدس کی پامالی نظر آئی لیکن بھلا ہو اس بھلے مانس کا جس نے اپنی آپ بیتی ’’شام کی منڈیر سے ‘‘ میں وہی سچائی اور پاکیزگی کی شان قائم رکھی جو اپنی زندگی میں تھی۔ نہ کوئی ملمع کاری اور نہ ہی کوئی تصنع یا بناوٹ۔ ایک ایک لفظ گہرائی کی پرتیں کھولتا ہوا۔ جملوں میں الفاظ تو اپنی نشست اس طرح جماکر بیٹھے ہیں مانو تاج محل کے در و دیوار میں جوہرات تاثرات و تجربات کا تو کیا کہنا۔ ان کا ہر تجربہ اپنے اندر بسیط تجربات اور تاثرات کی حسین پیچیدگیاں لیے ہوئے ہے۔ تحریر کی گہرائی کے سمندر میں یقینی اور بے یقینی کا عجب سا ماحول قاری کو باندھے رکھتا ہے۔ ان کے بچپن کے ساتھ ساتھ ان کے اختیاارات اور بے اختیاری بھی سر بستہ و دست بستہ ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ جب کبھی وہ حالات کے تپتے صحراء میں بھیگتی آنکھوں سے مسکرانے لگتے ہیں تو ان کی جرات اور بصیرت کی برف میں ہم خود کو پگھلتے محسوس کرتے ہیں۔ پاتال کی گہرائیوں میں انہیں جب پل پل گرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ کوئی دیومالائی قوت ان کا ہاتھ تھامے اوپر کی طرف کھینچ رہی ہے۔
 وزیر آغا اپنے جمالیاتی تصور کو الفاظ کا خوبصورت پیرہن بخوبی جانتے ہیں۔ شاید اس کا سبب وہ پیار، خلوص اور محبت ہے جو انہیں سرگودھا کی مٹی کے خمیر سے ملا ہے۔ ان کی تخلیقات اور بیانیہ انداز سے محسوس ہوتا ہے کہ کسی سیارے کی نئی زمین پر ایک نیا معاشرہ استوار ہورہا ہے۔ فطرت کی سادگی میں ڈوبے ان کے خیالات میں وجدان، حقائق اور عرفان و ادراک کا پتہ چلتا ہے۔ نہوں نے نظام کائنات کو اپنے دانش و شعور کی معرفت جلا بخشی ہے۔ وزیر آغا نے جابجا یہ محسوس کروایا ہے کہ وہ آزاد خیال سماجی زندگی کو سراہتے ہیں۔ ان ا انکسارانہ اور ہمدردانہ لہجہ، محبت دوستی اور ہم اہنگی کے لیے جہاد کے کئے نئے باب وا کرتا چلا جاتا ہے۔ ان کے دل پذیرانہ جذبات راہ کے ہر کسی کو اپنا دوست بناتے ہیں۔
جب آنکھ کھلی میری
دیکھا کہ ہر ایک جانب
زرتار سی کرنوں کا
ایک زرد سمندر تھا
اور زرد سمندر میں
چاندی کی پہاڑی پر
میں پیڑ تھا سونے کا
شاخوں میں میری ہر سو
جھنکار تھی پتوں کی
اڑتی ہوئی چڑیوں کی
یا آگ کی ڈلیوں کی
ایک ڈار سی آئی تھی
اور مجھ میں سمائی تھی
قدموں کے تلے میرے
زنجیر تھی لمحوں کی
میرے زرہ بکتر سے
جو کوندا لپکتا تھا
تاروں کے جھروکوں تک
پل بھر میں پہنچتا تھا
ہے جسم کے مرقد سے
باہر بھی تھا اندر بھی
میں خود ہی پہاڑی تھا
اور خود ہی سمندر بھی!!
 اس ضمن میں ’’نئے تناظر‘‘ کی ایک تحریر میں وہ کہتے ہیں کہ:
 ’’...... جدیدیت کا زمانہ دراصل ایک خلا کا دور ہوتا ہے۔ یعنی اس میں اقدار وآداب کی سابقہ روایات کے خاتمے کے بعد کوئی نئی روایت ابھی پوری طرح متشکل ہوکر سامنے انے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ جب فنون لطیفہ اسی ہونے اور نہ ہونے کی فضا کی عکاسی کرنے لگے اور ملا کے الفاظ میں اشیاء کو نام مہیا کرنے کے بعد ان امکانات کو اجاگر کرنے لگیں تو وہ جدیدیت کی اصل روح سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ معانی کی پختہ سرحدوں کی عکاسی ہر دور کے ادب کا مقدر ہے۔ لیکن جب کسی زمانے میں معانی کی یہ سرحدیں ٹوٹتی ہیں اور امکانات کا ایک جہاں ہوشربا طلوع ہوجاتا ہے تو قدیم ادبی مسالک اس کا احاطہ کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں جدیدیت کی تحریک ہی اپنی رفیق قوت تخلیق سے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترتی ہے۔ یہی جدیدیت کا مسلک اور یہی اس کا مزاج ہے۔‘‘
 یقین نہیں ہوتا کہ ان سطور کے الفاظ کی روح کے قدم ایک گاؤں ’’وزیر کوٹ‘‘ میں جمے تھے۔ جہاں سے ایک دیہاتی ماحول کی پرورش میں اتنا روشن دماغ و ضمیر اپنی روشن تحریر پیش کرسکتا ہے۔
وزیر آغا کے اسلوب کی شگفتگی اور نزاکت ان کی تحریروں کی جان ہے۔
 اپنی آپ بیتی میں بتاتے ہیں کہ
 ’’معاً مجھے خیال آیا کہ تخلیقی عمل کی کہانی چاک پر برتن بننے کے عمل بھی تو مشابہ ہے۔ کیوں نہ اسے سمجھنے کے لیے چاک پر برتن بننے کے عمل کا مشاہدہ کیا جائے۔ سو میں اپنے گاؤں کے کمہار کے پاس پہنچا اور اس سے کہا کہ مجھے برتن بناکر دکھائے۔ وہ بہت خوش ہوا کیونکہ پہلے کبھی کسی نے اس سے اپنے آرٹ کا مظاہرہ کرنے کی فرمائش نہیں کی تھی۔ اسی وقت اس نے چکنی مٹی کے ڈھیر میں پانی ملاکر مٹ گوندھ لی۔ پھر اس نے پاؤں سے چاک کو حرکت دی اور لمحہ بہ لمحہ اس میں تیزی آتی گئی۔ جب وہ بہت تیز ہوگیا اس نے مٹی کے ایک گولے کو (جو انتشار کی صورت تھی) چاک پر رکھا اور بالکل اچانک بے ہےئت چکنی مٹی نے ایک برتن کی شکل اختیار کرلی۔ ساری صورتحال مجھ پر آئینہ ہوگئی۔ چنانچہ میں نے تخلیقی عمل میںلکھا کہ:
 ’’تخلیقی عمل کی بنت میں دو طرح کے عناصر صرف ہوتے ہیں۔ منفعل اور فعال۔ منفعل عناصر میں وہ تمام نسلی تجربات شامل ہیں جو فنکار ورثے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ فعال عناصر میں وہ سارے تجربات شامل ہیں جنہیں وہ بچپن سے اب تک حاصل کرتا آیا ہے۔ فنکار کے باطن میں دونوں قسم کے یہ تجربات موجود ہوتے ہیں پھر کوئی ایسا واقعہ نمودار ہوتا ہے جو فنکار کے سارے باطنی نظام کو جھنجھوڑڈالتا ہے اس قدر کہ اس کے یہ تجربات منفی اور مثبت لہروں کی طرح ایک دوسرے سے متصادم ہوکر ’’نراج‘‘ پر منتج ہوتے ہیں۔ فنکار جو نراج میں مبتلا ہوکر اپنے اندر اترتا ہے تو آہنگ کا لمس اس کے باطن میں پوشیدہ تخلیقی مشین کو متحرک کردیتا ہے جو اسے ’’سانس رکنے‘‘ کے عالم سے نجات دلاتی ہے۔ چنانچہ تخلیق مختلف اثرات یا تجربات کا آمیزہ نہیں بلکہ ناموجود سے ابھرنے والی ( یعنی جست لگاکر باہر آنے والی) ایک ایسی حقیقت ہے جو لاثانی بھی ہے اور لاشریک بھی۔ فنکار کی طباعی کا یہی سب سے بڑا ثبوت ہے کہ وہ ایک نئی شے کو وجود میں لاتا ہے جس کا پہلے نام و نشان تک موجود نہیں تھا۔‘‘
 ہزاروں سطور یہ بتاتے ہیں کہ یہ ادیب، دانشور، صحافی، انشائیہ نگار اور شاعر کتنا عظیم تھا۔ لاکھ اعتراضات سہی لیکن اس کی عظمت ان کی تحریروں میں پوشیدہ ہے۔ ’’شام کی منڈیر سے‘‘کے اختتام میں اپنی پرُمعنی تحریر میں کہتے ہیں کہ:
 ’’....... آج سے تقریباً ۶۴ برس پہلے جب میں دن کے نقطہ آغاز پر کھڑا تھا تو اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے ارد گرد کا ہوش نہیں تھا۔ مگر آج کہ رات کے نقطہ آغاز پر پہنچا ہوں تو دیکھ سکتا ہوں اور یوں گہرے اسرار کو جو معانی کا گہوارہ اور امکانات کا منبع ہے نہ صرف سن سکتا ہوں بلکہ اسے ’’مس‘‘ بھی کرسکتا ہوں۔ میں جب اسے دیکھتا ہوں تو اس کے اندر ویسا ہی دھماکہ ہوتا ہے جیسے ناموجود کے اندر ہوا تھا اور پھر سارا آسمان مسکراتے ہوئے ستاروں سے اٹ جاتا ہے اور میں ان ستاروں کو اپنے پھیلے ہوئے دامن میں اس طور سمیٹنے لگتا ہوں جیسے گاؤں کی لڑکیاں کپاس چنتی ہیں۔‘‘
 اس عظیم مصنف کی موت اردو ادب کا سانحہ ہے۔ اتنی درخشاں تحریر کا مالک اب نہیں رہا۔ لیکن اب بھی اس کے الفاظ سیاہ فلک پر بکھرے چمکتے ستاروں کی مانند محسوس ہوتے ہیں مانو کہہ رہے ہوں کہ میں اس دنیا سے گیا ہوں لیکن میرے الفاظ تو آج بھی جگمگارہے ہیں۔
صبح کی آنکھ ہنسے شام کا تارا ناچے
رات بھر شہر مگر سارے کا سارا ناچے
٭٭٭٭-

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE