ہڑپہ کی
چرواہی
طاہرہ اقبال
چناں کو لگتا اِن پہرے داروں سے اُس کی نفرت اِتنی ہی پرانی ہے جتنے پرانے
ہڑپہ کے یہ کھنڈرات ہیں جن میں بوڑھے خمیدہ کمر، کھوکھلے تنوں والے چھال
اُدھڑے اوکان اور جنڈبکائن آدھے آدھے دفن ہیں، جن کی دھول لتھڑی شاخیں
چھتریاں تانے بھربھری زمین میں منہ کے بل دھنسی ہوئی ہیں اور جن کی گہری
گپھاؤں میں چناں اپنی بکریوں سمیت چھپ جایا کرتی ہے۔ صدیوں پرانی دھول سے
اٹااٹ ان جنڈبکائنوں کے کلاوہ بھرتنوں کے گردپختہ بینچ بنے تھے چناں کو اِن
پر بیٹھ کر جٹائیں کھجانے اور اُس کی بکریوں کو ان پر پچھلی ٹانگیں ٹکا کر
ٹیشاں اور پتے چرنے میں بڑی سہولت رہتی تھی۔ نہ وہ خود گارڈوں کی سیٹیوں سے
ڈرتی نہ ہی اُس کی بکریوں کو وہ کبھی سنائی دیتیں وہ گھنی شاخوں کی بوجھل
چلمنوں سے کھنڈروں میں اُڑتی دھول کے پردوں میں لپٹی بھیڑ کو دیکھتی یہاں
نت نئی مخلوقات بھر آتی تھیں۔ گورے کالے گینہوں رنگے جو ایک بار نظر آتا
دوبارہ کم ہی دِکھائی پڑتا، سوائے ان منحوس چہرہ پہرے داروں کے جو گھوڑوں
جیسی ٹاپوں والے سیاہ بوٹوں پر سوار دگڑ دگڑ چھتناروں میں گھسے چلے آتے۔
مینڈھیاں گندھے چٹلے سے اچھال کر اُسے باہر پٹختے چناں اُن کے ہاتھ کاٹ کھاتی
اور کھنڈروں میں بل کھاتی پکی پٹڑی پر بھاگ نکلتی جس کے دونوں اطراف مہیب
ٹیلوں کے منہ بند سلسلے رواں تھے، جن میں صدیوں پرانے مدفون منوں مٹی اوڑھ
کر سوتے تھے۔
نک کٹی، ٹھگنی، کالی بھدی
سیاہ بوٹوں کے گھوڑوں پر سوار گالیاں بکتے جھکتے پہرے داروں کے کئی چھانٹے
اور جھانپے لاتیں کھاتی چناں تو نوگزے کے مزار میں گھس کر منت کے مکھانوں
پر جھپٹتی اور بک بھر بھر نگلتی اور اُس کی بکریاں تب تک کئی پھلائیاں اور
بکائنیں چونڈ چکی ہوتیں۔ کئی بار چرواہے اور بھک منگے اُسے دبوچ بھی لیتے،
وہ دھول کے سمندروں بہتے موجیں مارتے نشیبوں میں لڑھکتی کبھی چوڑی بوسیدہ
اینٹوں والے بالائی شہر میں گرتی کبھی زیریں بستی، کبھی طبقہ بالا کی رہائش
گاہوں میں مچلتی، کبھی نچلے طبقے کے مکانوں میں لوٹتی، کبھی بازار، کبھی
منڈی، کبھی زمین دوز نالیوں میں اوندھاتی تو کبھی اندھی باؤلی میں کود جاتی،
جیسے چکنی مٹی کی کوئی ڈھلانی ڈھیم، جسے ہڑپہ کے بت تراشوں نے خام سی گھڑت
دی ہو، جو زمینوں کے صدیوں برابر بوجھ تلے پڑی گھس پھس گئی ہو۔
دھول کا موجیں مارتا سمندر جوار بھاٹے اُٹھاتا لہریں موجیں اُڑاتا مدفونوں کے
مہیب ٹیلوں سے ٹکراتا۔ دامن میں اُترتی گہری کھائیوں میں،کھدائی شدہ آثاروں
میں، سنگلاخ تاروں میں لپٹے کھنڈروں میں، بھدی تک کٹی مورتی سی چناں آثاروں
آثاربہتی، پہرے دار صدیوں پرانی دھول کے سیلابوں میں لپٹے ڈنڈوں اور
بندوقوں کی ٹوہیں دے دے کر اُسے باہر نکالتے۔ مہینوں کے اَن دُھلے بال،
گریں بھری چندھی آنکھیں ،سنک اُبلتی چپٹی ناک جیسے انھی آثاروں کی کوئی
شبیہہ جو وزنی اینٹوں تلے دبی رہ گئی ہو اور اب صدیوں بعد کھدائی میں تیشوں
کدالوں کی ضربیں کھا کھا کر باہر نکلی ہو۔ کہیں سے بھری کہیں سے چٹخی، دلی
ملی سی۔۔۔
بالائی
شہر کی تختی والے آثاروں کے قریب نل پر کپڑے دھوتی بستی کی عورتیں اُسے
دھتکارتیں’’گندی شوہدی، کالی، ٹھگنی۔‘‘
مسجد کے آثاروں والے ٹیلے سے نیچے اُترتے قبرستان میں پانی، مٹی، روڑ ڈالتی
عورتیں روڑوں کے بک اور ڈھیلے اُس کی سمت اُچھالتیں۔
’’ہٹ ہٹ دُور دفع بے وضو پلید قبرگھستان کی بے حرمتی نہ کر۔ ‘‘
پرانے داڑھی والے جنڈبکائنوں کے گرد پختہ بینچوں پر نوزائیدہ بچوں کو دُودھ
پلاتی اور ہر گزرتے سیاح کے سامنے ہاتھوں کے کشکول پھیلاتی نوجوان مائیں
زرد بوسیدہ پتوں کی مٹھیاں بھر بھر اُس کی سمت اُچھالتیں۔
’’دُر پرے دُور دفع ہمارے بچوں پر نحس سایہ نہ ڈال۔‘‘
کھنڈروں سے بہت نیچے بچھے کھیتوں میں ہل چلاتے کسان اُسے گھرکتے، جیسے پوری
کائنات اُسے ان کھنڈروں سے باہر دھکیلنے پر تلی ہو اور یہ پہرے دار تو شاید
یہاں تعینات ہی اسی کام کے لیے کئے گئے ہوں لیکن جب اُنھیں کوئی گوری چمڑی
والا دِکھائی دے جاتا تو پھر وہ اُسے وہیں آثاروں میں پھینک پھانک اُس کے
پیچھے لگ جاتے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں آثارِقدیمہ کی تاریخ دُہراتے
جواَب چناں کو بھی زبانی یاد ہو چکی تھی چناں اپنے دھول لباس میں لپٹی
اوڑھنی کی بوسیدگی میں اُن کی سچی جھوٹی انگریزی پر ہلکے ہلکے قہقہے پھوڑتی
بھوتنی سی جیسے پانچ ہزار سال سے انھی ٹیلوں میں کہیں دھنسی پڑی رہی ہو اور
ابھی دھونے، مانجھنے والی ہو جب کوئی گورا پوچھتا صدیوں پرانی اس کیل اور
دراوڑ نسل کے کچھ باشندے کیا اب بھی اس علاقے میں بستے ہیں تو گارڈ ’’یس سر
یس سر‘‘ گردن ہلاتے ہوئے چناں کا چہرہ یوں نوچ کر اُن کے سامنے پیش کرتے
جیسے وہ بھی سینکڑوں سالہ پرانی تہذیب کے آثاروں سے نکلا ہوا کوئی ظروف ہو
اور اگر اُن کے بس میں ہوتا تو وہ اُسے بھی آثارِ قدیمہ کی گراں قیمت پر
اِن گوروں کے ہاتھوں بیچ ڈالتے جس طرح وہ اپنی جیکٹ کی جیبوں میں بھرے ان
ٹھیکریوں ہڈیوں اور اینٹوں کے ٹکڑے اُنھیں لال ہرے نوٹوں کے عوض بیچا کرتے
تھے جن کے ساتھ کے کئی ثابت پیالے رکابیاں مٹکے ڈول کھلونے مورتیاں گھو گو
گھوڑے چناں کے اپنے کوٹھے کی پرچھتی پر سجے تھے اور بستی کے ہر گھر میں
استعمال ہو رہے تھے جنھیں چرواہے اور بھیک مانگنے والے بچے اُٹھا لاتے اور
گوروں کو دِکھا دِکھا کر دس روپے کا نوٹ مانگتے پھرتے پہرے داروں کو ان کو
یہ حرکات پسند نہ آتیں وہ اُنہیں اپنے موٹے موٹے ڈنڈوں کی ٹوہوں کے ساتھ
گوروں سے دور پرے رگیدتے رہتے۔ اس بستی کے سارے گھر بھی انھی موٹی چوڑی لال
اینٹوں سے بنے تھے جنہیں گارڈ سات ہزار برس پرانی کہتے تھے۔ اُن کے تو بس
میں ہوتا تو وہ چناں کا پورا گھر ہی ان گوروں کے ہاتھوں فروخت کر ڈالتے اس
کی اندھی ماں سمیت کہ اس ہزاروں سال پرانی تہذیب کا یہ بھی کوئی عجوبہ
ہے۔کئی بار تو وہ پھٹ پڑی۔
’’ایسے تو ہمارے گھر میں بھی بھرے پڑے ہیں۔‘‘
’’تمہارا گھر کدھر ہے۔‘‘
سیاح اُس کی جانب متوجہ ہو جاتے پہرے دار ڈنڈے سونت کر اُس کے پیچھے لپکتے۔
’’کم ذات گدھی! سودا ہی خراب کر دیتی ہے۔‘‘
اور اُسے اُس کے ریوڑ کے ہمراہ کسی جھنڈ میں دفن کر آتے۔ یہاں کی ہر شئے زمین
برد تھی جن کے آثار سرِزمین نظر آتے لیکن جڑیں صدیوں پرانے ٹیلوں میں گہری
گہری پھیلی ہوئی تھیں۔ ہر شئے ہر چہرہ اِک اسرار ملے وقت کی مٹھی میں ساکت
و جامد تھا کہ ایک روز اچانک کھدائی والے نشیبی حصوں میں جھلتے جھکڑ پاگل
ہو کر باہم منہ سر ٹکرانے لگے جیسے اُبلتے کڑاہے میں بھاپ چکراتی ہو۔
کھنڈرات پر چڑھا کچی دھول کا موجزن سمندر جھکڑوں کے گرداب میں ہلکورے کھاتا،
دھول اٹے درخت ٹیلے ٹبے، آثار مورتیاں، پہرے دار سب ہزاروں برس کہنگی میں
دفن بوسیدہ اور پرانے، لیکن ہڑپہ کی منڈی کے آثاروں پر بندوق تانے کھڑا یہ
پہرے دار بالکل نیا تھا اور نوگزے کے مزار سے نکلتی ہو حق کی صدائیں جھکڑوں
پر سوار اُس کے گرداگرد دھمالیں ڈالنے لگی تھیں۔ اوکاں کے گھنے بالوں والے
درخت دائیں بائیں جٹائیں گھومانے لگے۔ تیز رو جھکڑوں کے مستانہ وار جھولے
نوگزے کے مجاوروں کے ساتھ مِل کر جھوم رہے تھے۔ پتے ٹہنے ٹیلے ٹبے جیسے ر
شئے کو بوٹی چڑھی ہو۔ چناں نشہ بھری فضاؤں میں بہکنے لگی۔ اُس کا بالشت
بھروجود آدھوں آدھ ان ٹیلوں میں کہیں اُتر گیا اور سرزمین انگور سے پھوٹے
وجود کو دھمال چڑھ گئی۔
] چناں کو لگا نئے پہرے دار کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہے بلکہ وہ مرلی ہے جو
شوکیس میں بند کسی جوگی کے لبوں سے لگی ہے جس کی لے پر چناں ناگن سی لہرانے
لگی ہے۔ اُس کے ہاتھوں میں اوکاں کی ٹہنی کا مورچھل سا آ گیا تھا اور دِل
کے سادہ ورق پر اِک شبیہہ بنتی چلی گئی۔ مرلی بجاتے ہوئے کرشنا کی لنگوٹ
کسے بھوبھل رمائے کسی بھکشو کی نروان کی تلاش میں نکلتے سدھارتھ کی جیسے
عجائب گھر کی الماریوں میں سے نکل کر یہ ساری مورتیاں اُس کے گرد آسن جما
بیٹھی ہوں۔ اُس کا جی چاہا اُس کے پاس بھی اُس گوری لمبی لڑکی جیسا کاغذ
برش ہوتا جو اپنے ساتھی کو سامنے بیٹھا کر اُس کی شبیہیں کھینچتی ہے تو وہ
بھی اس کرشن کو اس رام کو سدھارتھ کو کہیں ہمیشہ کے لیے نقش کر دیتی ہے۔ اس
کے ہاتھ میں تو بکریاں ہانکنے والا سانگل تھا جو پتے اور کونپلیں توڑتا تھا
اور جانور ہانکتا تھا۔ جنگلی جھاڑیوں کے چوڑے پتوں پر، تہہ بہ تہہ اُترتے
کھنڈروں کے پرت،زمین و آسمان میں کھولتے گرد کے طوفانوں پر کہیں چھپ کر اِک
مورت سی بنا لیتی اور پھر عمر بھر اُس کو سجاتی سنوارتی رہتی لیکن ریوڑ کی
صحبت میں آٹھوں پہر رہنے والی اس چرواہی کو ازحد نازک اور نفیس انسانی
جذبات نے یکدم پچھاڑ دیا۔ اس کا جی چاہا وہ مووی کیمرے والے سے کہے بس ایک
فوٹو اس نئے پہرے دار کا اُتار دو۔جسے وہ اپنی قمیص کے اندر سینے کے ساتھ
چپکا رکھے گی۔ معاً اُسے خیال آیا کہ اُس کا کھلا ڈھلا چولا تصویر کو اپنی
حفاظت میں رکھنے سے قاصر ہے۔ اُسے پڑوسن کی کھونٹی پہ لہراتی تجوری جیسے
خانوں والی بنیان کی اہمیت شدت سے محسوس ہوئی پھراُس کا جی چاہا وہ چائے
پان والے لڑکے سے کہے کہ وہ جو ایوانِ خاص والے ٹیلے پہ نیلے گھوڑے پر سوار
سنگینوں سے لیس اُونچا لمبا گورا چٹا تیکھے نقوش والا کھڑا ہے اُسے چائے،
پان، مٹھائی، بوتل جو کچھ تیرے پاس ہے سب دے آ میرے پاس ادائیگی تو نہیں ہے
لیکن بل کے بدلے میں مجھے پھر قتل کر ڈالنا، جب وہ کچھ بھی نہ کر سکی تو
اوکاں کی برش نما ٹہنی توڑ کر دھول بھرے سینے والی زمین پر کچھ لکیریں
کھینچنے لگی۔ ویسی ہی شبیہیں جیسے عجائب گھر کی الماریوں میں مقید تھیں۔
مرلی بجاتا کرشنا، یدھ کویتار ارجن اپسراؤں کا رقص دیکھتا راجہ اِندر اور
آلتی پالتی مارے بیٹھا گوتما، پھر اُسے یہ ساری تصویریں نامکمل معلوم ہوئیں۔
برش جیسی تاروں بھری اوکاں کی ٹہنی پھیر پھیر سب مٹا دیا۔ اُسے لگا یہ نہ
کرشنا ہے نہ رام نہ اِندر نہ گوتما یہ تو آریا ہے جس نے ساری مورتیوں،
ظروفوں،مٹکوں، چرخوں، کنوؤں، محل ماڑیوں اور اس دھرتی کے سینے پر موجود ہر
شئے ہر ذی نفس کو روند ڈالا ہے۔ وہ تو گھوڑوں کی ٹاپوں سے اُڑتی دھول کے
کراہے میں لوٹنے اور تڑپنے لگی۔ جیسے اُس گھڑسوار نے اپنی سنگینوں سے اُس
کی بوٹی بوٹی چھید ڈالی ہو اور تلوار کی دھار میں پرو کر اُسے فضا میں
اُچھال دیا ہو لیکن پہرے دار کی بندوق کا رُخ تو چھت کی جانب تھا اور عجائب
گھر کے اندر ایک گوری کے پیچھے چلا جا رہا تھا۔
گوری شوکیسوں پر لکھی تحریر پڑھتی نئے گارڈ سے کچھ سوال کرتی اپنی کاپی پر
لکھتی اور اگلے شوکیس کے سامنے جا کھڑی ہوتی۔ چناں گوری کے چھوڑے ہوئے
شوکیس میں بندمورتیوں کو دیکھنے لگی چناں نے اُنہیں بیسیوں بار پہلے بھی
دیکھا تھا لیکن پہلی بار اُسے احساس ہوا کہ وہ تو سب ننگی ہیں۔
’’ہائے ربا! یہ سب بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر بنا ہی دیا تھا تو پھر پٹولے
تو سی دیتے ان گڈیوں کے لیے۔‘‘
ننگے ستر والی یہ مورتیں کس بے حیائی سے تن کر نئے پہرے دار کے مقابل کھڑی
تھیں۔ چناں عمر میں پہلی بار شرم کے احساس سے آشنا ہوئی جیسے تیز جھکڑوں نے
اُس کے اپنے تن کے کپڑے اُڑا دیئے ہیں اور وہ خود نئے پہرے دار کے سامنے
الف برہنہ کھڑی ہے وہ تیسرے چوتھے شوکیس سے ہی پسپا ہو کر باہر کھنڈروں میں
بھاگی، اوکاں اور ون کے چھتناروں تلے اُس کی بکریاں موجود نہ تھیں۔ شاید وہ
بھی اُس کی طرح سیر ہو کر کہیں کو نکل گئی تھیں۔ یا پھر پہرے داروں نے
ٹیلوں کے قدموں میں آثاروں سے نیچے بچھے کھیتوں میں انھیں ہانک دیا تھا۔ جن
بنچوں پر وہ کھر جما کر شاخیں چونڈتی تھیں وہاں اب کسی پھنسی مورتیاں مرلی
والوں سے ہم آغوش تھیں یہ مناظر ان چھتناروں کے لیے نئے نہ تھے لیکن آج
چناں کی گہری سانولی رنگت لال مٹی سے گھڑی ہڑپہ کی بھٹی میں پکی مورتیوں کے
ہم رنگ ہو گئی۔ وہ کھدائی شدہ ٹیلوں کے نشیبوں میں بے تحاشابھاگی ان کھدے
ٹیلوں پہ چڑھی ڈھلانوں پہ پھیلے چھتناروں میں گھسی ہر جگہ کوئی مرمریں
رادھا کسی لنگوٹ کرشن کی مرلی پر کتھک ناچتی تھی۔ پکی پٹڑی پر بھاگتے
بھاگتے حدت اور پسینہ سے اُس کا وجود نچڑنے لگا آثاروں کے پہلو میں بچھے
کھیتوں کو سیراب کرتے کھال میں کودی نے گاڑھی نیلی اوڑھنی پرے اُچھال کر
پھینکی اسے اپنا عکس اس مورتی جیسا لگا جو کھدائی کے دوران شاید زخمی ہو
گئی تھی، جس کے دونوں پستان سامنے سے ٹوٹ کر ہموار ہو گئے تھے جس کی ناک کی
پھنک او ر ہونٹوں کی قوس جھڑ گئی تھی۔ اُس نے تیکھی تیکھی رادھاؤں کو
حاسدانہ انداز سے دیکھا اور دھول کی مٹھیاں بھر بھر سر پر ڈالنے لگی گرد کا
غبار اُس کے گرد تن گیا۔ اسی شام ریوڑ باڑے میں تاڑنے سے بھی پہلے ساتھ
والی کی تار پہ لہرائی تیکی تیکھی بنیان اُس نے شلوار کے انگوچھے میں اُڑس
لی تھی۔
ہڑپہ کے کھنڈرات میں سے نکلی چوڑی چوڑی عنابی اینٹوں سے اسارے اپنے کوٹھے کے
سامنے سے گزرتے کھال کے گاڑھے گلابی پانیوں میں اپنی شبیہہ پھر دیکھی۔ لال
مٹی سے بنی بیٹھے بیٹھے بھدے خدوخال والی مورتی کے عکس میں سفید سنگِمرمر
سے ترشی تیکھے خطوط والی مورتیاں جھلملا گئیں جن کے پیٹ کی پلیٹ میں چیرویں
آنکھ دھری ہے۔ جن کے نیم وا ہونٹوں میں کپاسی کلی کھلی ہے۔ جن کے مرمریں
پستان تانبے کی گاگریں سی چوٹیاں چڑھے ہیں۔ چناں کو عمر میں پہلی بار
سنگِمرمر کی ان سفید مورتیوں جیسا خوبصورت دِکھنے کی چاہ نے پچھاڑ دیا۔ اپنی جلد رنگے کھال کے پانی میں انگوٹھے اور شہادت
کی اُنگلی سے نتھنے بند کر کے وہ ڈبکی لگا گئی مٹی کی مورتیوں کے ہم رنگ
بدن کو چکنی مٹی کا ڈھیلا مَل مَل رگڑ ڈالا۔ ساتھ والی جو اپنے نام سے
زیادہ بنیان والی پکاری جاتی تھی اور ہر بنیان والی کھنڈرات پر چڑھی اس
بستی میں کنجری کہلاتی تھی۔ کیونکہ وہ روزانہ گت کھول کے کنگھاکرتی ہڑپہ کے
آثاروں سے چرائے دیئے میں کپڑے کی واٹ ساڑ کر کاجل چھنگلیا سے آنکھوں میں
لگاتی چقندر کھا کر منہ پونجھنا بھول جاتی۔ اسی لیے اُس کی کوٹھری میں کرخت
چہرہ پہرے داروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا، جب چناں اُس کی کوٹھڑی سے نکلی
تو چھتناروں میں بھرے ہم آغوشوں تک آوازے پہنچے ’’کنجری کنجری؟‘‘ یہ بھک
منگے اور چرواہے فقروں اور قہقہوں کے لٹھ لیے۔ اُسے عجائب گھر کی عمارت میں
دھکیل آئے، جہاں نیا گارڈ کسی گورے کو شو کیسوں میں سجی مورتیوں کی تاریخ
بتا رہا تھا۔ سفید سنگِمرمر سے ترشی تیکھے نقوش والی نفیس دیویوں کی نسبت
گورے کی ساری توجہ ان لال لال بھٹی کی پکی ہوئی مٹے مٹے نقوش والی ان گھڑت
اور بھدی بھدی مورتیوں پر تھی۔ اس کے خیال کے مطابق ہڑپہ کی ابتدائی
کاریگری کے نقوش یہی تھے۔
گورے نے پھر وہی سوال دُہرایا’’کیا پرانی دراوڑ اور
کیل نسل کے لوگ اب بھی یہاں بستے ہیں۔‘‘
’’یس سر یس سر! یہ یہ دیکھئے۔‘‘
نئے پہرے دار نے اُسے بوٹ کی نوک سے دھکیل کر گورے
کے حضور حاضر کر دیا۔ یہ دیکھئے سر! بالکل یہی قد یہی ناک نقشہ انہی
مورتیوں کی ہم شکل۔۔۔ یہی تو وارث ہیں اس مرحوم تہذیب کے۔۔۔‘‘ گورے نے اپنے
کیمرے کی روشنیاں کئی زاویوں سے اس پر ڈالیں اُس کے بس میں ہوتاتو وہ چناں
کو مٹھی میں دبوچ کر اپنے چرمی بیگ میں چھپالیتا اور یورپ لے جا کر
آثارِقدیمہ کے داموں فروخت کرتا۔ وہ گیلری کے بیچوں بیچ دھرے مردے دفنانے
والے بڑے بڑے مٹکوں کی اوٹ میں چھپ گئی جیسے ڈرتی ہو کہ کہیں گورا اُسے
اُچک نہ لے جائے۔
جب گورا نئے گارڈ کی مٹھی میں لال نوٹ پھنسا کر چلا گیا
تو وہ وقفے کے لیے سیٹیاں بجانے اور لوگوں کو عجائب گھر کی عمارت سے باہر
نکالنے لگا۔ بتیاں بند ہوتے ہی وہ اُس شوکیس کے پیچھے سے نکلی جس میں پانچ
ہزار سالہ پرانا انسانی ڈھانچہ سبزمخمل کے کپڑے پر لیٹا ہوا ہے۔ جسے پہرے
دار دراوڑ نسل کی عورت بتاتے ہیں۔
’’تو نے مجھے ان جیسا کیوں کہا۔‘‘
گارڈ ہنسا۔
’’تو سرخی اور کاجل لگا کر اِن جیسی تو نہیں ہو گئی نا۔‘‘
نئے گارڈ نے تیکھے خطوط والی ہندو دیویوں کی
مورتیوں کی سمت اشارہ کیا’’تو تو ان جیسی ہی ہے نا، یہاں تو ایسی ہی ہوتی
تھیں۔‘‘
چھوٹی چھوٹی لال مٹی کی ننگے ستر والی بھدی مورتیوں
کے شو کیس پر نئے پہرے دار نے بندوق کی نالی جما دی۔
’’کیوں اُن جیسی کیوں نہیں۔‘‘
چناں نے اوڑھنی کا پلّو کھول کر یوں بکل ماری جیسے
اُڑھنی ڈھیلی پڑ گئی ہو۔ اس ایک لمحے میں اُس کی کل سورج ڈھلے والی چوری
کھلکھلا کر ہنسی۔
گارڈ نے بھی یہ چوری بھانپ لی۔
’’ہاں یہ تو ہے لیکن باقی سب تو نہیں نا۔ یہ قد بت
یہ نین نقش، یہ گوری رنگت، اری کملی! بات تو مٹی کی تاثیر کی ہے، جو جس مٹی
سے گھڑے گا وہ اسی مٹی کے جیسا ہی تو ہو گا نا۔ یہ تو سنگِمرمر کی چٹانوں
سے گھڑی ہیں یہاں گندم اور کپاس کے کھیتوں میں ایسے سفید پتھر کہاں یہاں کے
جلتے اُبلتے موسم تو جنگلی کیکروں کی سولیں، آک کوڑتمے، چیڑ، کوال گندل
تھور کنڈیاریاں سینچتے ہیں۔ بے بارش سوکھے کنڈوں والی دریائی مٹی سے تو
ایسی بھدی بھدی گھڑتیں ہی گھڑی جائیں گی نا۔۔۔‘‘
چناں کو انھی گارڈوں کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ انھی
جسمانی کوتاہیوں کی وجہ سے اس کھنڈر شہر کے باسیوں کو آریاؤں نے اپنا غلام
بنا لیا تھا۔ وہ کپاس اور اناج اُگانے والے، مٹی کی مورتیاں اور ظروف گھڑنے
والے محل ماڑیاں بازار چوبارے اسارنے والے، بیل گائیں پالنے والے گھوڑوں کی
ٹاپوں اور تیرتلواروں کا شکار ہو گئے کیسا گھمسان کارن پڑا ہو گا۔ یہ
ہنرمند بستیوں کی ترتیب و تنظیم کرتے رہے۔ تہذیب اور تمدن نکھارتے رہے، فن
اور فن پارے تخلیق کرتے رہے، نہ تیر بنائے نہ بھالے، نہ نیزے گھڑے نہ
تلواریں نہ گھوڑے پالے نہ ہاتھی، بیلوں سے ہل جوتے،پھٹی سے تانیاں تنیں۔
بھول گئے کہ ان سب کی حفاظت کے لیے جنگل کی سمت کھلنے والے رستوں پر مضبوط
قلعے اسارنا اور منجنیقیں گاڑنا بھی ضروری تھا۔ کیونکہ درندے لطافتِطبع اور
حسنِ ذوق نہیں رکھتے وہ تو فنکارانہ تنظیم و ترتیب کا جواب محض اپنے وحشی
کھروں اور ٹاپوں سے دیتے ہیں۔
چناں نے باہر جھانکا۔ اس کھنڈر شہر میں بڑی چہل پہل
تھی۔ منڈی کے چبوتروں پر خربوزوں، تربوزوں کی پنڈیں دھری تھیں۔ کپاس کی
گانٹھیں، گندم کے ڈھیرلگے تھے۔ پیاز،لہسن،بیر،چبڑ، شہتوت، پیلوں ڈھیریاں
جمی تھیں۔ آڑھتی اور گاہک بھاؤ تاؤ کرتے چھابڑی والے توری بینگن کے آوازے
لگاتے پھرتے، دھوتی نما ساڑھیوں والیاں گھونگھٹ کاڑھے چھاجوں میں اناج بھرے
بدلے میں پھل ترکاری وٹاتی تھیں۔
راوی کنارے ناریاں چکنی مٹی کی کوری جھجھریاں بھرتی
تھیں۔ بوکے ڈال ڈال گھڑے اور مٹکے سروں اور کولہوں پر چوٹیاں چڑھاتیں جن کی
کلائیوں میں آوی کی پکی چوڑیاں بھری تھیں۔ ساگ کے کنے چولہوں پر اُبلتے تھے۔
دھات کے چوڑوں اور مالاؤں والی مالکائیںہاتھی دانت کے سنگھاردان سامنے
کھولے لمبے سیاہ بالوں میں لکڑی کے دندانوں والے کنگھوں سے مینڈھیاں
گوندھتی تھیں۔ کنیزیں اُن کے پیردابتیں اور جھانویں سے ایڑیاں رگڑتی تھیں۔
کمہار چاق پر چڑھے ُکوزے ساخت کرتے۔ بت تراش مورتیاں گھڑتے۔ پھولوں سے رنگ
کشید کر نقش و نگار بناتے راج مزدور چو بارے اور محل اُسارتے من چلے مرلیان
بجاتے کہ اچانک جنگل کا در کھلا، اُونچے اُونچے برق رفتار گھوڑوں پر تلوار
زن نیزے سنگینیں کسے حملہ آور ہوئے اس فن نگری کو ہتھیاروں کی نوک میں پرو
ڈالا، بازاروں کی چہل پہل کو گھوڑوں تلے روند ڈالا۔
بھیانکر طوفان اُٹھے، لہو رنگ دھول زمین و آسمان کو
لپیٹ گئی۔ گھڑسواروں کے لشکر،نیزوں، بھالوں اور سنگینوں کے ساتھ چپے چپے پر
ٹوٹ پڑے۔ پھولوں سے کشید کیے رنگوں سے مورتیاں رنگنے والے پھولوں کی
مہکاریں ہاتھوں میں بسائے اپنی مورتیوں پر اوندھا گئے جن کے سینے کے آرپار
تلوار کی دھار سرخ گلاب کے پھولوں جیسی شوخ رنگ تھی۔ چاک پرچکنی مٹی چڑھائے
ظروف گھڑتے کوزہ گر، تانیوں پر سوت کی اٹیاں لپیٹے کپڑا ساز، کپاس اور اناج
بھرے کھیتوں میں ہل چلاتے کسان عمارتوں کے حیرت انگیز ڈیزائن اور بالاخانے
تعمیر کرتے راج مزدور سارے مناظر لہولہو تھے۔ راوی کا لال پانی کٹی دھنکی
بوٹیاں اور انسانی گوشت کے پارچے نگلتا سارے بند توڑ گیا تھا۔ اکاں اور
کیکروں کی ٹہنیوں پر پناہ لینے والوں کے سینوں میں تیروں کی انی لہو ٹپکاتی
تھی۔ باؤلی سے بوکے بھرتی ناریاں مال سے لٹک گئیں۔کنوؤں کا لہو لہو پانی
کناروں کناروں اُچھلتا زمین دوز نالیوں کو بھرتا تھا۔ عمارتیں لرزاں تھیں۔
جناتی گھوڑے ہنہنا رہے تھے۔ ہر سو تڑخ تاراج اور انہدام تھا۔ بچ رہے تھے
شہر کے کھنڈرات، مورتیاں، ظروف اور غلام جن کے نقوش چناں کے ہم شکل تھے۔
چناں نے اس ساری تباہی پر نگاہ کی تو اُسے لگا وہ
بھی کسی تیر کی انی کسی تلوار کی دھاردِل میں کھائے باؤلی کی مینڈھ پر تڑپ
رہی ہے اور یہ جو نیا گارڈ عجائب گھر کی الماریوں پر بڑے بڑے تالے لگا رہا
ہے۔ تو یہ دراصل وہی آریا ہے ظالم قاتل خونی۔
’’چل اب باہر نکل۔ ‘‘
پہرے دار نے عجائب گھر کی آخری روشنی بھی گل کر دی۔
کوئی زبردستی ہے کیا تو بھی آ رہا ہے جو مجھے کچل ڈالے گا؟
شوکیسوں کے ساتھ ساتھ گُھسڑتی فرش پر پھسکرا مار بیٹھی۔
’’آریا ہی تو ہوں ان مورتیوں کھنڈروں کا آریا تجھ جیسے
راکشسوں سے انھیں بچانے پر مامور چل نکل زہر میں بجھے ہیں یہ شیشے کہیں مر
گئی تو میرے گلے پڑے گی اور۔‘‘
’’ تو تجھے کیا تو تو آریا ہے، مارنا کاٹنا پیٹنا
تو تیرا کام ہے۔‘‘
مردہ اشیاء کی ٹھنڈک عجائب گھر کی گیلریوں میں رِینگ
رہی تھی۔ جیسے چھت سے فرش تک کافور چڑھا ہو جس میں گڑھی ہوئی مردہ اشیاء
بھی کپکپانے لگی ہوں۔
چناں اُسی شوکیس سے ٹیک لگا کر ٹھنڈے فرش پر پھسر
گئی، جیسے کافور کی خنکی میں برف کی قاش بن گئی ہو۔نیم تاریک گیلریوں کی
اُونچی دیواروں میں گھومنے والے گول پنکھے اندر کی ساری گرمی اور حبس باہر
پھینک رہے تھے۔اندر ہر شئے کو کپکپاہٹ چڑھ رہی تھی شیشوں کے پیچھے بندمردہ
اشیاء میں بھی اِک خفی سی لرزش تھی۔ پہرے دار نے اپنے ڈنڈے کی ٹوہ اُس کے
کولہوں میں کھبوئی۔
’’چل نکل باہر ورنہ اسی مورتی کے سنگ بند کر دوں
گاالماری میں، دونوں بہنیں اکٹھی رہیں گی۔‘‘
پہرے دار کی کھلکھلاہٹ دونوں گیلریوں کی کشادہ چھت
سے ٹکرا کر بازگشت شو کیسوں میں گونجتی رہی۔
باہر ہاڑ جیٹھ ٹیلوں ٹبوں پر چڑھ بیٹھا تھا۔ کھنڈروں
میں اُترتی اور ٹیلوں پہ چڑھتی دھوپ تمازت دھول کے اُبلتے سمندروں میں
ہونکتی تھی۔ پسینے چھوڑتی حبس چھتناروں میں دم گھونٹتی تھی۔اس کی بکریاں
وقفے کے دوران آثاروں میں پھلانگ گئی تھیں اورچوڑی اینٹوں والی ڈھی بنیادوں
پر چہل قدمی کر رہی تھیں جن کے کھروں سے بھربھری اینٹوں کا سفوف اُڑتا اور
ذرّات جھڑتے تھے۔ شکستہ بنیادوں کی منڈیریں نرم مٹی کے سینے میں مزید دھنس
رہی تھیں۔ اس شکست و ریخت سے بے خبر کنٹین کے سامنے بچھی چارپائیوں پر
بیٹھے گارڈ چائے پیتے اور بڑکے سائے تلے سستاتے تھے۔
پورے کھنڈرات پر چناں اور اُس کی بکریوں کا راج تھا
وہ نازک اور قیمتی آثاروں پر ریوڑ کے ہمراہ بھاگتی پھلانگتی انھیں گراتی
ڈھاتی چلی گئی۔ وقفے کے خاتمے پر گارڈوں نے دیوانہ وار سیٹیاں بجائیں،
بکریاں تو اپنی گستاخی پر خود ہی مجرم کی طرح نوگزے کے مزار سے متصل ٹیلوں
سے نیچے لڑھک گئیں لیکن بخارات چھوڑتی صدیوں پرانی دھول لپیٹے چناں سہج سہج
چلتی رہی جیسے اُنھی کھنڈروں کے اندر سے کہیں پھوٹ نکلی ہو۔
ہر چھتنار تلے جوڑے مل بیٹھے تھے۔ چونچیں لڑاتے،
کبوتروں کے جوڑے، پھدک پھدک ناچتے چڑیوں کے جوڑے، مساموں سے پھوٹتی محبت کے
سیلاب میں غوطائے نوجوانوں کے جوڑے، کھنڈروں سے اُچھلتی دھول اور تمازت کی
طرح ہر شئے کے بھیتر ملن کی شدت، دہکتی ہوئی دھرتی سے اُٹھتے بخارات کی طرح
کھول رہی تھی۔ چاقو کی نوک سے چھال اُترے تنے پر ناموں کا جوڑا کندہ کرتی
لڑکی سے چناں نے کہا۔
’’میرا ناں بھی یہاں لکھ دے۔‘‘
’’تیرے ساتھ دوسرا نام کس کا لکھوں جس نے تجھے سارا
ہی پایاب کر لیا ہے۔‘‘
چناں نے اپنے منحنی سے وجود کو چادر کی بکل میں سختی سے
لپیٹا۔
’’آریا۔‘‘
’’آریا‘‘ بازگشت کھنڈروں، ڈھنڈاروں میں اُبھرتی ڈوبتی رہی۔
چناں نے اُنگلی کا موقلم ایوانِ خاص پر بندوق تانے
کھڑے نئے پہرے دار کی سمت لہرایا۔
لڑکی اور اُس کا دوست ایک ساتھ کھلکھلائے۔
’’تیری پسند تو اچھی ہے لیکن کیا وہ بھی تجھے پسند کرتا
ہے۔‘‘
چناںکی حیرت آثاروں کے استفہام پر ٹنگی رہ گئی اس
سے کیا کہ وہ کسے پسند کرتا ہے وہ خود تو اُس کی پسند ہے نا۔
’’اری تو پوچھ نا کہ تو اُسے اچھی بھی لگتی ہے کہ نہیں۔‘‘
کھلکھلاہٹ کی ٹاپوں سے چھٹتے دھول کے طوفان محل
ایوان، منڈی بازار سب ڈھک گئے تھے۔
وہ کسی کالج کی ڈھیر سی لڑکیوں میں گھرا اُنھیں
کھنڈرات کی تاریخ بتا رہا تھا۔ چناں ریوڑ کے ہمراہ لوہا پگھلانے والی بھٹی
اور منڈی والے آثاروں سے اُوپر چڑھی اور بکریوں کو اوکاں کے اُس پیڑ کی سمت
ہانکا، جس کے سائے میں وہ آریا لڑکیوں کو اس کھنڈر شہر کی تاریخ سمجھا رہا
تھا۔ لڑکیاں چیخیں مار مار یوں اِدھر اُدھر لڑھکیں جیسے آریاؤں کے کسی مسلح
جتھے نے اچانک حملہ کر دیا ہو۔ نازک نازک کانچ سی شہری لڑکیوں کی تیز دھار
چیخوں میں چناں کے وحشی قہقہے گتھ گئے۔ زناٹے دار تھپڑ کے ساتھ اُس کی چری
ہوئی باچھوں میں دانت پیوست ہو گئے۔ ’’چل نیچے بھتنی! ان ماؤں کو لے کر کھنڈروں سے باہر نکل
جا۔‘‘
وہ چھپاکا مار کر اوکاں کے تنے کے گرد گھومتے بینچ
پر چڑھی اور آریا کی گردن میں نوکیلے دانت دھنسا دیئے۔
جب تک نئے پہرے دار نے چٹلے سے پکڑ کر اُسے کھائی میں
اُچھالا اُس وقت تک اُس کی گردن پر وہ تین زخم پرو چکی تھی اور خون زبان کی
چتکبری نوک سے چاٹ رہی تھی۔
پہرے دار کی گردن پر دانتوں کے نیلے نیلے نشانوں میں سے
لال لال لہو رِستا تھا، جن میں چناں کا لعاب اور آنسو دونوں گھلے تھے۔ وہ
ٹیلے کی ڈھلان سے لڑھکتی نشیب میں بہتے کھیتوں کو سیراب کرتے پانی کے کھال
میں اوندھائی۔ پانی کی سطح پر جلتی ہوئی کئی زبانیں دھری تھیں۔ پورے وجود
پر انگارے سے سر سر بجھے جلد جل کر چرمرا گئی۔ سیخ پہ چڑھا ننگا گوشت بھن
گیا۔ سینکڑوں فٹ اُوپر ٹیلے پر لڑکیوں کا گروہ نئے پہرے دار کے گرد پھر جمع
ہو گیا تھا۔ چناں نے اپنے ہاتھ بازو دیوانہ وار کاٹے کہ کھارے پانی پر لہو
کی دھاری سی چل نکلی، جس میں سورج کی چمک نے نیلاہٹ بھر دی تھی جیسے لال
نیلے سوجن بھرے زخم۔
اُوپر آثاروں کی ہر اینٹ، ہر درخت ،ہر ٹیلے، ہر
کھنڈر، پر ایک ہی نام کی تختی لٹکتی تھی۔
’’آریا۔‘‘
تصویریں بناتی لڑکی کے کینوس پر، دستاویزی فلم بناتے
کیمرے میں فیچر لکھتی لڑکی کے قلم سے ایک ہی تصویر بنتی تھی۔’’ آریا‘‘
سیاحوں اور کالج کی لڑکیوں کے منہ سے ایک ہی لفظ نکلتا تھا’’آریا۔‘‘
کیکروں اور اوکاں کے دف پر بجتے ایک ہی لفظؒ کی
جھنکار پانی بھرے کھال میں جلترنگ پیدا کرتی تھی اور چناں کے بدن کے ہر ہر
تار سے آ کر ٹکراتی تھی۔
آریا آریا۔
عجائب گھر میں وہ ہفتہ وار تعطیل کا دِن تھا۔ سارے
کھنڈرات ٹیلے آثار ویران تھے، بس قدموں کے نشانات بھرے تھے۔نشیبوں میں
اُترتے ٹیلوں پر چڑھتے اَن گنت قدم حیران تھے پتہ نہیں کون سا کس کا سب
گڈمڈ۔
ہفتہ وار چھٹی ہو عید ہو کہ شب رات ہو۔ چناں کو تو
اپنی بکریاں چرانے کے لیے یہاں آنا ہی پڑتا تھا کہ اُس کا ریوڑ چرنے کی
چھٹی کبھی نہ کرتا تھا۔ وہ قبرستان والی کھائی سے اُوپر چڑھتی اور ڈھئی
ہوئی مسجد کی بنیادوں کو پھلانگتی ہوئی پختہ پگڈنڈی سے بل کھاتی ادائیں
ہاتھ نو گزے کے مزار کے اِردگرد بکریاں چراتی رہتی اور کھنڈروں میں بچھے
خالی خالی پیروں کے نشانوں کے سلسلے جوڑا کرتی۔ کوئی کہاں تک کس کے ساتھ
ساتھ گیا تھا۔ شہری بوٹ دیسی جوتے، فیشنی سینڈل ایڑھیوں والی جن کے بلوں کے
سے نشانات بھاری جوگروں کے ساتھ ساتھ جڑے تھے، جیسے یہاں سے گزرنے والے
ہزاروں انسان اپنے آثار چپلیں ان آثارِ قدیمہ پر چھوڑ گئے ہوں۔
مزار کے مجاور ہفتہ بھر کے چڑھاوں کو بانٹ بونٹ کر
بوسیدہ صفوں پر اوندھے منہ پڑے ہوتے، جن کے بے حس جسموں پر حشرات الارض
رِینگتے کھلے منہ سے مکھیاں اندر باہر آتی جاتی رہتیں بعض اوقات چناں کو
لگتا ٹھنڈے ہو گئے ہیں لیکن پھر قبر سے ٹکی کونڈی روغنی پیالوں اور
گھنگھریاں بندھے گھوٹنے کی دھمک مجاوروں کے خراٹوں سے جھڑتی جن کی انجن
جیسی خرخراہٹ سے ڈر کر چناں کی بکریاں کھنڈروں سے نیچے بچھے کھیتوں میں
چھلانگیں لگا جاتیں۔ کنٹین بھی بند ہوتی پہرے دار چھٹی پر ہوتے۔ سارے کھنڈر
چناں اور اُس کی بکریوں کے رحم و کرم پر ہوتے لیکن یہ نیا پہرے دار شاید
کہیں دُور پورب سے آیا تھا جو آج بھی اپنی کوٹھڑی پر چھتری بنائے کھڑے
اوکاں کے تنے سے لگا سو رہا تھا۔ ایسی گہری نیند جیسے ہفتہ بھر دِن رات ان
کھنڈروں کی چوکیداری کی ہو اور پلک بھی نہ جھپکی ہو۔
کتنا عالی شان جہاں تک اوکاں کی پھنکیں سایہ فگن
تھیں وہاں تک اُس کے پیر بچھے تھے۔ اوکاں کے چھتنار میں جہاں بوڑھے جنڈ نے
اپنی جڑیں اُلجھا دی تھیں۔ اُنھی پر اُس کے گھنگھریالے بال بکھرے تھے۔ جہاں
توری کی نازک بیلیں توریا رنگ پھول برلائی تھیں وہیں اُس کے ہونٹ ذرا ذرا
وا تھے۔
چناں نے سیاہ گول بھدے لٹکے ہوئے ہونٹوں کا دائرہ
اُس کے پیروں پر زنجیر کر دیا۔وہ اس پھوہاسی ضرب سے ہڑبڑا کر بیٹھے بناہی
اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
’’اری تو آج چھٹی کے دِن۔‘‘
اُس نے اُجاڑ پڑے کھنڈروں میں نگاہ گھمائی۔ جہاں
نشیب اُترتے اور ٹیلے چڑھتے اَن گنت نقشِ پاہوا کی مٹھی میں گڈمڈ تھے اور
مجاوروں کے خوفناک خراٹوں سے ڈر کر اُس کی بکریاں اِدھر اُدھر نشیبوں میں
اُتر گئی تھیں۔
’’اری تو میری نوکری کے پیچھے کیوں پڑی ہے۔‘‘
اُس نے چانٹا سا فضا میں لہرایا، جیسے گھوڑے کو چابک
دِکھاتا ہو کہ تلوار سونتے کاری وار کے لیے جست بھر چکا ہو۔ وہ اُس کے
چانٹے چابک تلوار کی زد میں آ گئی۔
’’مار مجھے مار۔۔۔ مار ڈال مجھے۔۔۔‘‘
اُس کے دونوں ہاتھ اپنے رُخساروں پر مارنے لگی۔ نئے
پہرے دار نے جھٹکے سے دونوں ہاتھ چھڑا کر اُس کے سامنے جوڑ دیئے۔
’’دیکھ تیرا خدا ہے کہ بھگوان بدھ ہے کہ یسوع مسیح۔
تجھے سب کا واسطہ ہے میری نوکری مجھے بخش دے۔ ابھی تو میری شادی کو صرف دو
مہینے ہوئے ہیں۔ گھر میں بیٹھی تلے کی تار سی دُلہن میری پہلی تنخواہ کا
انتظار کر رہی ہے۔۔۔‘‘
اُس کے پیروں ہاتھوں تلے سے زمین چھٹ گئی۔ جھٹکا
کھاکر اندھی باولی میں جا پڑی اور پھر گھٹنے ٹخنے گھسڑتے ہوئے اُوپر چڑھی
اور جناتی ہاتھوں میں اُس کی ٹانگیں جکڑ لیں۔ نوکیلے دانت پنڈلیوںمیں نکوس
دیئے جیسے دانتوں کے رستے ساری ہی اُس کے اندر کہیں اُتر جائے گی۔ دانتوں
کے نشانات سے رستے لہو میں گھل مِل کر اُس کی پور پور میں حلول کر جائے گی۔
پہرے دار پاؤں جھٹکنے لگا جیسے چیونٹیاں چڑھ گئی
ہوں اور کھنڈروں کے پہلو میں بچھے کھیتوں میں کام کرتے کسانوں کو پکارنے
لگا۔
’’اوبھائیا بکریاں سارے کھنڈر تباہ کر گئیں بکریاں۔۔۔
او بھائیا میری نوکری کا سوال ہے اوبھائیا بکریوں کو ہنکاؤ۔۔۔‘‘
وہ جدھر گیا چناں اُس کے پیروں سے لپٹی دھول میں
گھسٹتی چلی گئی۔ پکی پٹڑی کی رگڑیں کھاتی کہان نما ٹیلوں پر پھسلتی نشیبوں
میں لڑھکتی آثاروں کی بھربھری اینٹوں پر بجتی، نوگزے کے مزار سے متصل ٹیلوں
پر بچھی کچی دھول میں زندہ دفن تڑپتی پھرکتی رہ گئی، مزار سے نکلتے طبنورے
کے سر اور حق ہوکی صدائیں جیسے اُس کے وجودکے کھلے مساموں سے شوکارتی کو
کتی ہوں جیسے وہ ساری پگھل پگھل کر کوئی دھڑکتا ہوا سیال بن گئی ہو اور اب
موجیں مارتے آتشیں لاوے کی طرح اس مسمار بستی پر بہتی ہو۔ پہرے دار منہ میں
دبی سیٹی بجانے لگا جیسے مدد کے لیے نوگزے کے مجاوروں کو پکار رہا ہو برباد
بستی پر حملہ آور قزاقوں کی مزاحمت میں پسینہ پسینہ ہو رہا ہو۔ آنسوؤں،
دھول اور نکسیر لتھڑے چہرے کے ہتھیاروں کے سامنے بے بس ہو اور نادر
آثارِقدیمہ کو شدید خطرات لاحق ہوں۔
چناں جیسے ہڑپہ کے کھنڈرات میں دھات پگھلانے والی
بھٹی میں جھونک دی گئی ہو اور اب وہ کھولتا ہوا سیال لاوا سی قطرہ قطرہ نئے
پہرے دار کے وجود کی بندوق کا بارُود بن رہی ہو۔ پہرے دار نے اُسے اُلجھی
ہوئی جٹاؤں سے پکڑ کر اُچھالا اور زمین دوز نالی میں پٹخ دیا۔ خود ہانپتا
کانپتا نشیب چڑھا، حرارت پسینہ لپیٹے ٹیلے پر واقع اپنی کوٹھری میں دروازہ
بند کر کے پڑ رہا۔ وہ بگولا سی بدن کو گانٹھ بنا کر اُچھال اُچھال دروازے
پر مارتی رہی، سرپٹختی رہی لیکن کمزور سا در نہ ٹوٹ سکا۔ شاید اندر سے کہیں
پہرے دار اپنے مضبوط وجود کے ساتھ اُسے دھکیلے ہوئے تھا۔ چناں کی جلد زخموں
خراشوں اور رگڑوں سے اُدھر گئی تھی۔ تپتی دوپہر نے جسم پر جمے دھول اور میل
کو کھور دیا تھا، نکسیر پھوٹ پھوٹ کر ہونٹوں، گردن اور گریبان کو بھگو رہی
تھی۔خالی خالی نقشِ پا سے بھری کھنڈر بستی کی خاموشی چنگھاڑتی تھی۔ ہوا پڑ
باندھ کر کھنڈروں، نشیبوں پر حملہ آور تھی۔ اُس کی بکریاں سارے آثاروں کو
لتاڑ چکی تھیں، جیسے کبھی آریاؤں نے اپنے گھوڑوں کے سموں تلے انھیں برباد
کر چھوڑا تھا۔ قدیمی اینٹیں بنیادوں سے لڑھک گئی تھیں۔ چناں آنسوؤں اور
زخموں کی مٹھی میں چٹختی پتہ نہیں سو گئی تھی کہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ اُس کی
بکریاں اُسے سونگھتی رہیں، سم مار مار جگاتی رہیں اور آخر اُس کے اِردگرد
دائرہ بنا کر بیٹھ گئیں۔ جیسے اِک دُوجی کی گردنوں سے لپٹی بین ڈالتی ہوں۔
عنابی سورج دھول لپیٹے داغدار تھا۔ شفق کا خون کہانوں والے ٹیلوں پر چھڑکا
تھا۔ کھنڈروں میں اُڑتی دھول کی دُھند سیاہ پڑ رہی تھی۔ کوٹھری کا دروازہ
چوپٹ کھلا تھا جس میں گتھا اندھیرا باہر کو آ رہا تھا، جب چناں کی آنکھ
کھلی تو مغرب کی اذانیں ڈھنڈاروں کی بازگشت بن رہی تھیں جس میں نو گزے کے
مزار سے اُٹھتی ہو حق جذب ہوتی تھی۔ کوٹھری بھرے اندھیرے میں ہر کہیں ہاتھ
مارا پہرے دار کہیں نہ تھا۔ شاید وہ کوٹھری کے در پہ بے ہوش پڑے وجود کو
پھلانگتا ہوا کہیں کونکل گیا تھا۔ اپنی تلے کی تار سی نئی نویلی دُلہن کے
پاس۔۔۔ اور۔۔۔ اور اُسے خبر بھی نہ ہوئی۔ نس نس سے چنگھاڑتی چیخیں مسجدوں
سے اُبھرتی اذانوں میں مدغم ہوتی تھیں۔ اس کے بدن کا سیال لاوا قطرہ قطرہ
بہہ گیا تھا۔ خالی خولی ادھڑی ہوئی کینچلی چڑمڑپڑی رہ گئی تھی۔ اُس کی
بکریاں چرنا چھوڑ کر کوٹھری کے باہر ایک دوجی کے پیٹ میں منہ دھنسائے اُداس
بیٹھی تھیں۔ کھدائی شدہ آثاروں میں دھواں دھواں تاریکی کے جالے آڑے ترچھے
تنے تھے۔ ٹیلوں پر پھیلی تانبا سی شفق کو گرہن چڑھا تھا اور سورج کانسی کے
تھال سا چہرہ لیے ٹیلوں کی پشت پر ٹنگا تھا۔ یکبارگی اس برباد بستی میں
جنگی نعرے بلند ہوکے کہیں فتح یابی کے بگل بج رہے تھے۔
دگھر دگھر کی آوازیں تیز تھیں۔ شاید آریاؤں کے جتھے
حملہ آور ہو رہے تھے اور زمین و آسمان کے درمیان بھری ہر ہر شئے کو کاٹ پیٹ
رہے تھے۔ چناں میں سکت نہ تھی کہ وہ کوٹھری میں بھرے اندھیرے کو چیرتے ہوئے
باہر کے ہنگامے کو دیکھ سکے۔
نوگزے کی قبر سے اُٹھنے والا قلندرں، مستوں، ملنگوں
کا لشکر نیزے بلمیں تیر تلواریں سونتے اُس کے سر پر آن پہنچا تھا۔ ہنہناتے
ہوئے گھوڑے سم اُٹھائے دُمیں لہراتے ٹاپیں بجاتے کوٹھری کا کچا فرش اُدھیڑ
رہے تھے۔
دھول اور اندھیرا بھری کوٹھری میں زخم زخم بچھی
چناں کی اُدھڑی کینچلی سے سسکار اُبھری۔
’’وہ کدھر گیا۔‘‘
’’اری مورکھ! وہ تو گیا اپنی تلے کی تار جیسی دُلہن
کے پاس گیا۔‘‘
عظیم الشان آثاروں کی چوڑی چوڑی اینٹیں دھڑ دھڑ گرنے لگیں۔
’’آریا آریا۔‘‘
سسکارہ اُس کے سیاہ موٹے لبوں پر لتھڑی نکسیر میں چپک کر
رہ گئی۔
’’اری اس میں کیا سواد ہے جو ہم قلندروں میں نہیں
ملتا تجھے۔‘‘ مسمار ناک کی پھنک ڈھے گالوں کی ہڈی پچکی چپکی ہوئی تھوڑی پر
سفیدی میں گھلی زردی لیپ تھی،جیسے عجائب گھر کی کافور خنکی میں لتھڑی ہوئی
مردہ مورتی ساکن ٹھنڈی اور بے حس۔۔۔ جس پہ لٹکتی ہوئی تختی پر لکھا تھا۔
’’آریا‘‘
اس کے گرداگرد اَن دُھلی داڑھی کے گچھوں اور مونچھوں کی
گھپاؤں میں سے رالیں ٹپکتی تھیں، اذان کی صداؤں کی بازگشت کھنڈروں میں بجتی
تھی۔ لمبی جٹاؤں، داڑھی اور مونچھوں کی غلیظ کھال میں ڈھکے سائیں بابا نے
ہرے چوغے کی کھلی آستینیں چڑھائیں اور ہنہناتے ہوئے گھوڑوں کو ہاتھ کے
اشارے سے روکا۔ ’’امامت میں کروں گا۔ تم سب جماعت کے واسطے صف
بناکر اقامت میں رہو۔‘‘
چناںنے بہتی نکسیر سرنگی موٹے موٹے جمے ہوئے لوتھڑے
زبان پر ٹیک گئے حلق میں نگلے۔
’’سائیں بابا! آج تم نے نماز نہیں پڑھنی کیا؟‘‘
’’اری یہ نماز ہی تو ہے۔ باہر دیکھ سارے ٹیلے ٹبے،
کھنڈر نشیب اوکاں ون بکائتیں سب حالتِ سجدہ میں ہیں۔‘‘
چناں کی چیخیں کونڈی نما سیاہ ریخوںوالے ہاتھوں کے پیالے
میں بجتی رہیں، جن سے بھنگ کی وحشی بو اُٹھتی تھی۔ سبز چوغوں میں بھری بدبو
افیون میں گھلی چناں کے منحنی سے وجود پر لیپ ہو گئی۔ سیاہ ریخنوں والے
کریڑی جمے دانتوں میں اڑوڑی برانڈ شراب کی بوندیں چناں کے کھلے منہ میں
ٹپکتی تھیں۔ ڈھنڈاروں میں گھومتی اذانوں کی بازگشت خاموش تھی۔
چمگادڑوں کے پروں کی سرسراہٹ اوکاں اور ون کے چھتناروں میں
ڈوبتی اُبھرتی اورکھنڈروں کی ڈھنڈروں میں بھری وحشت اب میں ایک ہی بازگشت
تھی۔
’’آریا۔‘‘
’’آریا۔۔۔آریا۔‘‘
|