Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

ہر سفر دائرہ ۔ ایک اجمالی جائزہ
۔۔ رضاالحق صدیقی
دائرہ ایک کلاسیکی استعارہ ہے۔ نظام عالم کو دائرہ سے تشبیہ دینا کلاسیکی
طرز فکر میں مستعمل رہا ہے۔ کلاسیکی ادب میں دائرے کو وقت سے تعبیر کیا
جاتا ہے۔ وقت جو ایک معین دائرے میں چکر لگاتا رہتا ہے.وقت ایک تسلسل کا
نام ہے۔ کائنات مسلسل حرکت میں ہے۔وقت کائنات ہے۔ رب بزرگ و برتر نے
کائنات کو دائرے کی شکل میں تخلیقکیا،کائنات کا ہر سیارہ، ہرستارہ دائرے
کی شکل میں حرکت پزیر ہے۔ دائرے دائروں کے گرد محو رقص ہیں۔
دائروں کا یہ سفر ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ کائنات میں
بلیک ہول کا وجود،اوزون میں سوراخ کی صورت دائرے کی پیدائش  سے موسمیاتی
تغیر، پانی میں بھور کی صورت دائرے، وقت کے تسلسل کا استعارہ ہیں۔اور اسی
وقت کے دائرے میں مقید اوصاف شیخ نے خود کو وقت کے ہاتھ سونپ دیا ہے۔
بس اک لمحہ ہمارے پاس ہے اوصاف جیون کا
ہمیں اک جست میں سارا سمندر پار کرنا ہے
ادب کا ارتقا شخصیت کے ارتقا سے ہم آہنگ ہی نہیں، مماثل بھی ہے۔ جس طرح
شخصیت اپنے ابتدائی مدارج میں بعض قوی تر شخصیات کے سحر مٰیں مبتلا ہوتی
ہیں اور ایک طویل کشمکش اور تک و دو کے بعد ہی خود کو اس سحر سے آزاد کر
کے اپنی اصل خوشبو کو دریافت کرتی ہے بعینہ ہر نئے ادیب کے لئے انفرادیت
کی تلاش اقر حصول جب ہی ممکن ہے کہ دہ قوی تر شخصیات کے قوی اثرات سے خود
کو آزاد کرےأ
اوصاف شیخ کے شعری مجموعہ "ہر سفر دائرہ" کے مطالعہ سے ایک بات یع واضح
ہو کر سامنے آئی ہے کہ اوصاف شیخ نے ایک ایسے شہر میں رہتے ہوئے جہاں
مجید امجد،جعفر شیرازیِ بشیر احمد بشیر،گوہر ہوشیارپوری،ناصر شہزاد جیسی
قوی تر شخصیات کے اثرات موجود ہوں، وہاں اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا
ہے۔اوصاف شیخ کی شاعری میں استعمال ہونے والی استعارے اس کی انفرادیت کا
ثبوت ہیں اور اس نے اپنے استعاروں کو بھرپور معنی کے ساتھ استعمال کیا
ہے۔انفرادیت کا یہی جوہر اوصاف شیخ کی غزلوں میں نمایاں ہے بظاہر یہ
غزلیں ویسی ہی ہیں جیسی سب کی ہوتی ہیں۔ان میں میں وہ ہی مضامین اور
موضوعات ہیں جو دوسروں کے یہاں ملتے ہیں۔وہی وردات قلبی،وہی احساسات و
کیفیات جو دوسروں کے ہاں ہوتی ہے مگر غزل کی پیشکش کا انداز ان کا اپنا
ہے۔اس کی شاعری میں کہیں دھیماپن اور کہیں تندوتیز لہجہ ہے۔
اوصاف شیخ کا کہنا ہے
ہے کبھی دل، کبھی نگاہ سے جنگ
روز ایک خواہشِ گناہ سے جنگ
روز غم کے نئے محاذ پہ ہوں
روز لڑنا نئی سپاہ سے جنگ
اوصاف شیخ نے اپنےآپ کو زیادہ تر تغزلکے محدود مضامیں تک پابندرکھا ہے
لیکن ان کی رنگین بیانی سے ہزار مرتبہ سنی ہوئی باتیں بھی ایک نئے کیف و
تاثر کے ساتح سامنے آتی ہیں۔ اس کے اسلوب میں وہ جدت اور ندرت یقینا ہے
جو انفرادیت سے ظہور میں آتی ہے۔ اوصاف شیخ کی بات ان کے خلوص و صداقت
کا آئینہ ہے اسی لئے اس کی شاعری میں ایک بے ساختہ پن نظر آتا ہے۔
پہلے تو چھینی گئی آنکھوں سے بینائی یہاں
اور پھر سارے نگر میں آئینے بانٹے گئے
اک سفر درپیش تھا تپتے ہوئے صحراوں کا
اور کچھ پہلے سفر کے آبلے بانٹے گئے
استعاروں کی بات کرتے ہوئے اوصاف شیخ کا کہنا ہے،
ہے کس کو یاداب کچا گھڑا،بیلہ و ریگِ تھل
وفاوں کو نئے اک استعارےکی ضرورت ہے
دائروں کی محدودیت کے ساتھ ساتھ سمندر کی وسعت، دو متزاد رویوں کا اظہار
اوصاف شیخ کی اضطرابی کیفیت کے غماز استعارے ہیں۔
عجب دیکھا ہے منظر دائرے میں
سمٹ آتا سمندر دائرے میں
تو میری آنکھ سے دریا چرا لے
میں لاوں گا سمندر دائرے میں
کہیں تو ختم ہو کیسا سفر ہے
پھراہوں زندگی بھر دائرے میں
مجھے ٹکروں میں بانٹا جا رہا ہے
بپا ہے ایک محشر دائرے میں
 

 
 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE