|
ڈاکٹر
صغرا صدف دُکھ کے
جال میں ہر لمحہ ماہی بے آب کی طرح سِکستی تڑپتی صدیوں سے کڑی دھوپ میں
ننگے پاؤں چلتی زندگی بڑی عجیب شے ہے۔زندگی کا خمیر ضرور دُکھ کی پکی مٹی
سے گوندھا گیا ہے جِسے تروتازہ رکھنے کیلئے آنسوؤوں کے نمکین پانی کی ہر
لمحہ ضرورت رہتی ہے۔ زندگی کا اصل بھی دُکھ اور حاصل بھی دُکھ دُکھ کی
سیریل میں سکھ خوشی سب عارضی اور لمحاتی وقفے، کہانی جدا جدا مگر اختتام
ایک اور نتیجہ سانجھا، دِلوں میں دکھ کی فصل کی کاشت ازل سے جاری ہے اور یہ
واحد زمین ہے جس کی زرخیزی میں کبھی فرق نہیں آتا۔ بین ،آہیں اور چیخیں
کائنات کا ساز، اس قدر مشکل اور پیچیدہ زندگی میں خوشی کا ساز بجانے والے
لوگ بڑے اہم ہوتے ہیں۔ بھلا ان کے اپنے دل کتنے ویران ہوں وہ سب کو بھلے
لگتے ہیں کیونکہ ان کے ساز سے نکلنے والی لہروں کی آڑ میں انسان کائنات کی
چیخوں سے محفوط ہوجاتا ہے۔ افتخار نسیم افتی بھی ایک ایسا ہی شخص تھا جسے قدرت نے دُکھی مخلوق کی خوشنودی کا اہتمام کرنے کی ڈیوٹی سونپ رکھی تھی ۔ اُس نے اپنا کردار کماحقہ ادا کرنے کیلئے کئی سوانگ رچائے۔ اس کی گٹھڑی میں کئی چولے تھے۔ وہ چولے بدلتا زندگی کی سٹیج پر لوگوں کوہنسا رہا تھا۔ وہ دوستوں کے درمیان ایک خوشگوار احساس کی طرح تھا، وہ محفلوں کی جان تھا۔ جہاں اپنے پرائے سب اس کی دلفریب شخصیت سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس نے عمر کا بیشتر حصہ اک غیر سرزمین پر بسر کیا مگر اس کی محبتوں کا محور ہمیشہ سرزمین پاک ہی رہی وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا میں ایک مکمل پیکج ہوں، اس کی موجودگی دِلوں سے اُداسی اور دُکھ کوزائل کرکے لبوں پر خوشی کے پھول اور آنکھوں میں اُمید کے چراغ روشن کرتی تھی، زندگی سے اس کی محبت اور رویہ ہمیشہ بہت مثبت رہا۔ اُسے دوستوں، دشمنوں کو حیران کرنے کی عادت تھی۔ لوگوں کو حیرانی میں مبتلا کرنے کیلئے وہ ہمہ وقت اقدامات کرتا رہتا تھا۔ اس کی ذات اک گہرا سمندر تھی جس میں بڑے قیمتی لعل و جواہر چھپے تھے وہ موقع ملتے ہی غوطا خوروں کا چولا پہن کر سمندر میں اُترتا اور کوئی قیمتی پتھر لے کر سطح پر نمودار ہوتا۔ پھر اخباروں اور میڈیا میں اس کی تخلیق کی دھوم مچ جاتی۔ مگر خبروں میں رہنے کا شوق اُسے زیادہ دیر ذات کے سمندر کے اندر نہیں رہنے دیتا تھا۔ وہ اپنے لباس اپنی گفتگو اپنے سٹائل سے لوگوں کو متوجہ کرتا اور خوش ہوتا تھا۔ تقریباً ہر ہفتے مجھے فون کرتا۔ قہقہہ کھا کر پوچھتا’’دس فیر ڈاکٹر کی خبراں نیں‘‘ اور میرے بولنے سے پہلے خود خبریں سُنانے لگ جاتا۔ چند ہفتے پہلے شام کسی کا پیغام آیا کہ اِفتی کو برین ہمیرج ہوگیا ہے۔ ہسپتال میں کشمکش حیات میں ہے۔ اس کے تمام دوستوں نے بھی وہ رات کشمکش کے پُل صراط پر دعائیں کرتے اور اِفتی سے درخواستیں گزاری۔ہم نے اِفتی کو کتنے واسطے دئیے کہ بیماری سے مقابلہ کر، ہم نے خدا سے کتنی التجائیں کیں کہ اس منافق اور دوغلے معاشرے میں ہمیں ایک سچے اور سُچے دوست سے محروم نہ کر۔ مگر ہماری نہ اِفتی نے سُنی اور خدا کی معیشت تو وہی جانے کہ اِفتی چلا گیا۔ آرام سے شاہانہ انداز میں۔ نہ بسترِ مرگ پر ایڑیاں رگڑیں نہ اپنوں اور بیگانوں کا ظرف آزمایا، نہ گِلہ کیا نہ شکوہ خاموشی سے اس جہاں سے کسی اور دنیا کی طرف نکل گیا۔ جہاں کاویزا وہ ہر وقت اپنی جیب میں رکھتا تھاکہ جب بھی دنیا کی تنگ نگری میں دم گھٹے وہ سامانِ سفر باندھ کر نکل جائے اسے انتظار نہ کرنا پڑے۔ مفت کے ٹکٹ نے اسے سوچنے کی فرصت بھی نہ دی۔ وہ چلا گیا کہ اس جہاں کا سفر وہ طے کر چکا تھا۔ جتنا جاننا مقصود تھا اس سے زیادہ کھوج چکا تھا۔ مٹی کے وجود نے اپنی اسائنمنٹ مکمل کر لی تھی اس لیے ایکسٹینشن کی اُمید نہیں تھی تو ٹھہرنے کا جواز بھی باقی نہیں رہا تھا۔اب کثافت سے لطافت کی طرف سفر کا مرحلہ تھا۔ اوپر والے گریڈ میں ترقی ہو رہی تھی، ساتھ ایک اچھا پیکج بھی تھا بے چین روح کے قرار کی بشارتوں سے بھرا ہوا، اس نے فوراً سرِ تسلیم خم کیا اور آڈرز ہاتھ میں پکڑے نئی ڈیو۔ٹی پر چلا گیا کِسی سے الوداعی ملاقات کی ضرورت بھی محسوس نہ کی، میں نے اس کے لیے ’’تھا‘‘ کا لفظ ضرور استعمال کر لیا ہے۔ لیکن ابھی تک میرے دل کو اس کی موت کا یقین نہیں ۔ اسی لیے میں نے اس کیلئے ریفرنس کا اہتمام بھی نہیں کیا۔ فیس بُک ای میل اور موبائل سے اس کا نام ڈیلیٹ نہیں کیا۔ نہ جانے کیوں مجھے یہ سب وہم وگماں سا لگتا ہے۔ حقیقت صرف اتنی ہی نظر آتی ہے کہ وہ آجکل چھٹیاں گزارنے کِسی ایسے جزیرے پر ہے جہاں موبائل ، فِیس بُک اور ای میل کی سہولیات نہیں ہیں۔ مگر ایک دن اچانک وہ آئے گا اور فون کرکے کہے گا’’دس فیرڈاکٹر کیہ خبراں نیں‘‘، شاید وہ ہماری تمام خبروں سے واقف ہو مگر کون ہے جو ہمیں اس کی خبر دے۔
ڈاکٹر صغرا صدف دبئی میں اردومنزل کے زیراہتمام ایک تقریب سے خطاب کر رہی ہیں |