محمد حمید شاہد
کفن
ہاں میری
معصوم بچی! میں اَپنے دَل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں کہ کہانی اس کا کفن نہ
بن سکی ‘ تو تمہارا کفن ضرور بنے۔ اور اب جب کہ تم زِندگی کی سانسیں ہار
چکی ہو تو میں تمہاری نعش کے سرہانے کا غذ تھامے اس کہانی کو لفظ دینے کا
دُکھ سہہ رہا ہوں۔
جب وہ آخری سانسیں لے رہی تھی تو کہانی لکھنے کی یہی خواہش میرے اندر یوں
سرپٹخ رہی تھی جیسے چودہویں کی رات ‘ سمندر کی بپھرتی لہریں‘ ساحل پر
سرپٹختی ہیں۔ مگر اس کی ٹھہرٹھہر کر آتی سانسوں کے سنگ ‘ ہونٹوں پر سرسراتے
نرم گرم لفظوں کی مہک نے میرے قلم کو ایک لفظ تک تخلیق نہ کرنے دیا۔ اور جب
اس کے ہونٹوں پر سارے لفظ غروب ہو گئے‘اور وہاں چپ اَندھیرے نے جالا بُن
دِیا‘تو یوں لگا‘ میں نے یہ کہانی نہ لکھ ڈالی ‘ تو میرا سینہ پھٹ جائے گا۔
مگر قلم چپ تھاا ور لفظ اُس سے پرے کھڑے تھر تھر کانپ رہے تھے۔
اور آج جب کہ اس اَن کہی کہانی میں تمہاری کہانی بھی شامل ہو چکی ہے‘ وہی
خواہش میرے اندر پھر انگڑائیاں لے رہی ہے۔
اور تم ہو کہ جو ابھی ابھی میٹھی باتوں کا امرت رس میر ی سماعتوں میں گھول
کر ابد کی نیند سو گئی ہو‘ مجھے یقین ہے‘ آنکھیں
کھول دو گی اور مجھ سے ایک بار پھر پوچھو گی:
”بابا! کہانی مکمل ہوگئی؟“
میں جواب نفی میں دوں گا ‘ تو تم وہ کہانی مجھے تھما دوگی جو دو روز قبل
مکمل کر کے تم نے میرے لےے تکیے کے نیچے رکھ چھوڑی تھی۔
یوں وہ کہانی ‘ جو میرے سینے کے محبس میں پھڑ پھڑا رہی ہے‘ اَن کہی رہ جائے
گی۔
میری بچی‘ میں جو ایسااِتنے وثوق سے کَہ رہا ہوں تو اِس لےے کہ چودہ برس
قبل انہی دنوں اور انہی لمحوں میں جب اس نے سانس کی بازی ہاری تھی اور گھر
میں مفلسی ننگا ناچ رہی تھی ‘ تو میں نے چاہا تھا؛ اس کی اَپنی کہانی سے اس
کا کفن بناﺅلونگا۔
تم نے میرے بانجھ قلم کو دیکھا اورپھر اس کا غذ کو دیکھا تھاجس پر ایک لفظ
کا بھی احسان نہ تھا۔ میرے بھنچے ہوئے ہونٹوں کو دیکھااور میری آنکھوں میں
جھانکا تھا‘ جن سے سارے بدن کا کرب قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا۔ یہ سب کچھ
دیکھتے ہوے بھی تم نے سہمے لفظوں سے کہا تھا:
”بابا !کہانی مکمل ہوگئی ؟“
میں ایک لفظ بھی منھ سے نہ کَہ سکا تھا۔ ایک دردسینے سے اٹھااور حلق میں
آپھنسا تھا۔ مگر تم پر تو جیسے میرا جواب کہیں جا چکے لمحوں میں اتر چکا
تھا۔ تم نے یقین کی فضا سے نفی والے جواب کی سرگوشی سن لی تھی۔ تب ہی تو تم
لمحہ ¿ موجود کی حقیقت کا سامنا کرنے کے لےے اپنے قدموں سے چل کرمیرے قدموں
میں آبیٹھی اور بھیگے لفظوں میں التجا کی تھی:
”بابا! میرے پاس بھی ایک کہانی ہے۔ اسے دِے دیجیے مگر اپنے نام سے کہ یہ اس
طرح یہ ماں کا کفن بن سکتی ہے“
مجھے معلوم تھا ‘ بیٹی کہ وہ تمہاری پہلی کہانی تھی۔
میں نے اُسے پڑھا اور اُس کی چوٹ دِل پر محسوس کی۔ بے شک وہ فن کا شاہکار
تھی۔
مگر دنیا فن کو نہیں ‘ نام کو تولتی ہے۔ اور نام کو منڈی میں
لانے کے لےے طویل مسافت کی گرد پھا نکنا پڑتی ہے۔ اس طویل مسافت پر
جانے کے لےے تمہارے پاس وقت نہ تھا۔ سامنے اس کی نعش پڑی تھی اور گھر میں
مفلسی ننگا ناچ رہی تھی۔ لفظ قلم سے پرے کھڑے تھرتھر کانپ رہے تھے اور کاغذ
کورے کا کورا تھا۔آنکھوں سے بدن کا کرب بہہ رہا تھا اور تم بھیگے لفظوں سے
کَہ رہی تھیں۔
”بابا! یہ کہانی ماں کا کفن بن سکتی ہے۔“
میں چاہتا تھا‘ جو کہانی تخلیق کرنے کا دُکھ تم نے سہا ہے‘ تم ہی سے منسوب
ہومگر یہ بھی جانتا تھا کہ جب اسے تمہارے نام سے اِشاعت کے لےے دوں گا تو
شاید شکریہ کے بے ثمر لفظوں کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو۔ اور شکریہ کا لفظ
کفن نہیں بن سکتا تھا۔
پھر میری بیٹی‘ میں نے مجبوراً تمہاری کہانی پر اَپنا نام لکھا اور اُس
کاکفن بنا ڈالا۔
اور آج جب کہ تم چپ کے لا محدود گہرے پانیوں میں اُترگئی ہواورلفظ میرے قلم
سے پرے تھرتھر کانپ رہے ہیں۔مجھے یقین ہے‘ تم کَہ دوگی:
”بابا‘ میرے کفن کے لئے کہانی سرہانے پڑی ہے۔“
مگر میری بچی‘ میں نے آج فیصلہ کر لیا ہے کہ لفظ چاہے قلم کی گرفت میں آئیں‘
نہ آئیں‘ میں چپ مفہوم کے سہارے ‘ ساری کہانی تمہارے ٹھنڈے وجود پر اُتا
دوں گا۔ اور تمہارے سرہانے بیٹھا جا چکے لمحوں کی ایک ایک اکائی سے گزروں
گا‘ جن کے تانے بانے سے یہ کہانی تشکیل پا کر میرے سینے میں پھڑا پھڑا رہی
ہے۔
سنو میری بچی! غور سے سنو!
جب میں نے اس کہانی کے پہلے مرحلے میں اُسے آخری بار دِیکھاتھا‘ اس وقت
عورتیں اس کاذکر کرتے ہوے ایک دوسرے کے کانوںمیں
سرگوشیاںانڈیلنے لگتی تھیں۔ حیرت کی اُنگلیاں دانتوں تلے جا دبتیں اور
آنکھوں کی پتلیاں یوں کُھل جاتیں ‘ جیسے آنکھوں میں ادھرادھر تیزی سے
پھدکنے والا کالا سا موتی ابھی باہرآ گرے گا۔
پنگھٹ پر مٹیاریں اُس کا ذکر کرتی تھیں ‘ تو کبھی کھنکتے قہقہوں ‘ کبھی
بھیگے لفظوں‘ اور کبھی تعجب سے۔ کوئی سن رہا ہو یا نہیں‘ بس آواز مدہم ہو
جاتی اور لفظ دِھیرے دِھیرے پھسل پھسل کر دوسری کے کانوں میں گرتے۔ جن کی
سماعت کی جھولیوں میں لفظ گرتے‘ ان کے سینے کے اندر مقید پرندہ کبھی گہری
فضا میں غوطہ لگاتا اور کبھی اوپر کو اُٹھتا ۔ جب وہ گہری فضا میں غوطہ
لگاتا‘ تو سکوت کا چولا پہنے ہوتا اور جب اُوپر اٹھتا‘ تو اس کے پروں سے
کھنک دار پھڑ پھڑاہٹ اٹھتی‘ جو حلق سے نکلتی تو فضا مترنم ہو جاتی۔
سراداراں کا تنور تو جیسے اُس کی باتوں کے لےے گرم ہوتا تھا۔ جتنی روٹیاں
پکتیں اُن میں اُس کے لذت اور کرب بھرے ذِکر کے پھول ضرور ڈالے جاتے۔ تنور
پر اس کے ذکر سے ہونے والی کُھسرپُھسر اور پنگھٹ پر اُس کے نام سے اُٹھنے
والی سرگوشیوں کی عمر ایک سی تھی۔ اس کے سرو جیسے قد‘ نیلی جھیل آنکھوں
‘چھوٹی مگر ستواں ناک‘ لمبے بالوں یا پھر شفق سے سرخی چرائی شفاف رنگت کا
تذکرہ ہوتا تو چند دنوں بعد خودبخود دم توڑ دیتاکہ جب نوعمر لڑکیوں میں اس
کے حسن کا ذکر چھڑتا‘ تودوچار لفظوں سے بات آگے نہ بڑھتی اور ہر ایک اپنے
سراپے میں حسن تلاش کرنے لگتی۔ کوئی بوڑھی جو اُس کی من موہنی صورت کا
مصرعہ اٹھاتی‘ تو دوسری گزرے وقتوں کی کتاب سے اپنے حسن کی غزل نکال لاتی۔
مگر جس روز سے مہر اللہ بخش گم حواس کے ساتھ گھر پلٹا تھا تو پنگھٹ اور
تنور پر اس کا ذکر تواتر سے ہونے لگا۔
مہر اللہ بخش اس کا باپ تھا اور یوں چلتا تھا جیسے زمین کے ایک ذرّے کو
کھنگال رہا ہو۔ اُس کے جھریوں بھرے ہاتھوں پر کہیں کہیں سفید بال تھے۔ ایک
ہاتھ کمر پر ہوتا‘ دوسرا لاٹھی پر۔ وہ لاٹھی کو مضبوطی سے زمین پر جماتا
تھا‘ تب قدم آگے بڑھاپاتا۔ وقت نے اس کی پشت پر اونٹ کی طرح کاکوہان بنا
ڈالا تھا ۔ وہ گردن سدھائے ہوے بیل کی طرح جھکائے رَکھتا تھا۔ دھیرے دھیرے
نپے تلے قدم اُٹھاتا ‘ یوں جیسے وہ نہیں چل رہا ہوتا‘ زمین آہستہ آہستہ
پیچھے سرک رہی ہوتی۔
جس روز وہ واقعی اپنے قدموں سے چلا تھا‘اس روز زمین ساکت ہوگئی تھی اور وہ
تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ایک ہاتھ لاٹھی پر تھا جو تھر تھر کانپ رہا تھا
اور دوسرا جو کمر پر ہوتا تھا‘ تیز ہوا کی زد میں آئے ہوے خشک پتے کی صورت
فضا میں ڈول رہا تھا۔ وہ لاٹھی جو کانپتے ہاتھ میں تھی‘ زمین پر پڑنے کی بہ
جائے گھسٹ کر ایک نشان چھوڑ رہی تھی۔ یوں‘ جیسے کوئی سانپ چھوڑ دیا کرتا ہے۔
اِسی لکیر سے سرگوشیوں نے اپنا پھن اُٹھایا تھا۔
پنگھٹ پر اس کا ذکرہوتا تو سینے زور زور سے دَھڑک اٹھتے۔ یوں لگتا‘ اندر
ایک ایسا پرندہ تھا جو اَپنی پھڑپھڑاہٹ سے سینے کا قفس توڑدے گا اور فضا
میں تیرنے لگے گا۔ حیرت سے کھلی آنکھیںاک ادا سے شرم و حیا کا بوجھ اُٹھا
کر جھک جاتیں یا تعجب سے چہرے لٹکتے یا پھرعجب معنی خیز مسکراہٹ چہروں پر
ناچنے لگتی۔ سرداراں کے تنور پر تو جیسے ایسے چہروں کا داخلہ بند تھا ‘ جن
پر اس کے ذکر سے حیا کی چمک دوڑ جایا کرتی تھی۔
گاﺅں کے عین وسط میں سرداراں کا تنور تھا۔ بس یوں کَہ لیجےے گاﺅںہر گلی
سرداراں کے تنور پر ضرور پہنچتی تھی۔ گویا وہ مرکز تھا جہاں سے سارے راستے
پھوٹتے تھے۔جتنی باتیں گاﺅں کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچتی تھیں ان
پر سرداراں کے تنور پر بیٹھنے والیوں کی مہریں ضرور لگتی تھیں۔
سرداراں کیا تھی‘ بس ہڈیوں کا ڈھانچہ ۔ سر پر میل سے اَٹے ہوے سفید بال‘
یوں جیسے پہلے آٹا گوندھا گیا ہو‘ پھر اُس سے موٹی موٹی سویاں بنائی گئی
ہوںاور پھر انہیں گرد آلود کر کے سرداراں کے سر پر چپکا دیا گیا ہو۔ اس کے
ہاتھ بڑے بڑے تھے‘ ایسے کہ اگر اس کے سارے وجود کو چھپا دیا جاتااور صرف
ہاتھ سامنے رہنے دےے جاتے تو یوں لگتا‘ جیسے وہ اس کسان کے ہاتھ تھے ‘ جو
سارا دن جنگل میں بڑے کلہاڑے کے ساتھ لکڑیاں کاٹتا ہے ‘ ٹوکتا گیڑتا ہے یا
پھربیلوں کی جوڑی پیچھے پیچھے چیختا چلاتا ہل تھامے رہتا ہے۔ خیر‘ سچ پوچھو
تو سرداراں کے ہاتھ اتنے بڑے بھی نہ تھے ‘ جتنی اُس کی زبان ۔ اس کی آنکھیں
باہر کو یوں نکلی ہوئی تھیں جیسے قمیض کے بٹن کا دھاگہ ڈھیلا ہو جائے تو وہ
آگے کو جھک آتا ہے۔ مگر اس کے گال اندر کو دھنسے ہوے تھے۔ ہونٹ خوب سیاہ
تھے‘ جیسے سارے تنور کی راکھ بس انہی پر جمی ہو۔ جب وہ تنور کے پاس بیٹھ
جاتی توسر پر آٹے اور مٹی سے لتھڑا کپڑا باندھ لیتی اور ایسا ہی ایک کپڑا
ایک ہاتھ پر لپیٹ لیتی۔ جب شعلے خوب مچل چکتے اور واپس اپنے منبع میں پلٹ
جاتے تو وہ تنور پر جھکتی اور ہاتھ پر لپٹے کپڑے سے تنور کی اندرونی سطح کو
صاف کرتی۔ کپڑا ایک طرف دھر کے‘ ہاتھ کو پہلی کے چاند کی صورت خم دیتی اور
سب سے پہلے آنے والی ہم مجلس کی پرات میں موجود گندھے آٹے کو اس چاند میں
بھرلیتی تو بھدے ہاتھ چمکنے لگتے تھے۔ وہ آٹے کے پیڑے کو دوسرے ہاتھ کی مدد
سے ہتھیلی میں یوں گھماتی جیسے زمین اپنے محور پر گھوم رہی ہو۔ پھر اُسے
زور زور سے کبھی ایک ہاتھ پر پٹختی اور کبھی دوسرے ہاتھ پر مگر اس ہوشیاری
کے ساتھ کہ وہ چودھویں کے چاند کی صورت گول ہو جاتی۔ جب اسے یقین ہو جاتا
کہ اس میں مزید پھیلنے کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر اسے دائیں ہاتھ پر دھرتی
اور تنور میں جھک کر مہارت سے ایک جانب تھپک دیتی۔ اس سارے عرصے میں ایک
لمحہ بھی ایسا نہ آتا جب اُس کی زبان رک گئی ہو۔ ہاتھ اپنے محور پر حرکت
کرتے‘ مینڈک کی طرح باہر کو امنڈتی آنکھیں اپنے زاوےے پر پھدکتی رہتیں اور
زبان لفظوں کے پیڑے بنا بنا کر اِدھر اُدھرتھپکتی رہتی۔
عین چوراہے کے وسط میں‘ پھونس کے چھپر تلے‘ جتنی بھی عورتیں بیٹھتیں وہ
سرداراں کی ہم عمر ہوتیں۔ فرق ہوتا بھی تو اُنیس بیس کا۔ کنواری لڑکیوں کا
داخلہ بند تھا۔ گاﺅں کا چوراہا تھا‘ مرد آتے جاتے تھے۔ کنواریوں کا اس جگہ
بیٹھنا صحیح بھی نہ تھا۔ اور یہ معقول بہانہ تھا جس کے ذریعے بوڑھیوں نے
لڑکیوں کو اَپنی محفل سے نکال رکھا تھا۔ یوں‘جیسے اُن کے ذِکر ہی سے
سرداراں کے تنور سے شعلے اُٹھتے تھے‘ وہ آنے لگیں تو ان کی باتیں نہ ہوں گی‘
آگ نہ بھڑکے گی‘ روٹی نہ پکےں گی۔ بوڑھیاں چاہتی تھیں‘ آگ جلتی رہے‘ روٹیاں
پکتی رہیں۔
معاملہ اگر بڑی بوڑھیوں تک محدود رہتا تو لڑکیاں کب کا جیت چکی ہوتیں مگر
مقابل سرداراں تھی جس کی زبان لفظوں کے شعلے اگلتی تھی۔اور جب وہ پوری طرح
ڈٹی ہوئی تھی تو کس لڑکی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ بے رحم طوفانی لفظوں سامنے
ایک لمحے کے لےے بھی ٹھہر سکتی۔
” کیا بن سنور کر نکلی ہوری۔ کیا غضب ڈھار ہی ہو۔ کیا ٹھمک ٹھمک چلتی ہو۔
کسی نے گزرنا ہے یہاں سے؟ خیال کرنا کوئی اور قتل نہ ہوجائے“
اس پر بوڑھیوں کے قہقہوں کا کورس۔ بات یہیں تک رہتی تو کوئی مضبوط اعصاب
والی‘ لڑکیوں کے بیٹھنے کی رسم ڈال ہی دیتی مگر جو کچھ آگے کہا جاتا‘ خدا
پناہ ۔
اور یوں بوڑھیاں اس محفل میں اور لڑکیاں پنگھٹ پر خوب کھل کر گفتگو کرتیں۔
اس کا ذکر دونوں جگہ عجب انداز سے چلتا رہا۔
ایک طرف بے تاب سینوں میں چنگاریاں سلگاتے ہوے تو دوسری طرف پیڑی جمے
ہونٹوں پر‘ ہُوںہُوں اور ہونہہ کے ساتھ۔
کم عمر بچوں کا داخلہ نہ تو پنگھٹ پر بند تھا‘ نہ سرداراں کے تنور پر کہ
دونوں جانب یہی خیال تھا یہ عمر ایسی باتوں کے سمجھنے کی نہیں ہوتی ۔ کھل
کر بات ہوتی بھی کب تھی؟مخصوص اشارے ‘ مخصوص علامتیں‘ مخصوص استعارے۔ ان کی
دانست میں ان نادانوں کی فہم کے نازک قدم اتنی گہری کھائیوں میں اُترنے کے
قابل نہ تھے۔
میں نے جب اُسے اِس کہانی کے پہلے مرحلے میں آخری بار دیکھا تھا تو میں
پنگھٹ پر بھی جایا کرتا تھا اور تنور پر بھی۔ شاید میں کچھ بڑا ہو گیا تھا
تب ہی تو لڑکیوں کے کھنکتے قہقہوں میں مفہوم تلاش کرنے لگتا اور بوڑھیوں کے
اِشاروں سے تصویریں بنانے لگتاتھا۔ جب میں یوں کرتا تو میرے چہرے پر
سنجیدگی لکھی جاتی تھی جسے کنواریاں پڑھتیں تو قہقہوں کی کھنک ایکا ایکی
رُک جاتی۔ جیسے چلتے ریکارڈ سے سوئی اچانک اُتر گئی ہو۔ اور بوڑھیاںمیرے
چہرے کی اس کیفیت کو دیکھتیں تو تنور کے شعلے آنکھوں میں بھر کر میری جانب
برسا دیتیں۔ میں ٹھہرا رہتا تو آگ کے انگارے منھ میں بھر کر میری جانب
اُچھال جاتے اور مجھے وہاں سے کھسکتے ہی بنتی۔
پھر وہ لمحہ بھی آیا کہ جب میں لڑکیوں کے قہقہوں اور بوڑھیوں کی حیرت گزیدہ
پیشانیوں کا مفہوم سمجھنے لگا اوراس کے ذکر سے عجب سی اُلجھن محسوس کرنے
لگا تھا۔ اس کا ذکر ہورہا ہوتا تو جی چاہتا اُٹھ کر چل دوں ۔ مگر جیسے زمین
قدم جکڑ لیتی ‘سینے کے اندر ہی اندر کچھ ہونے لگتا‘ سماعتیں لپک کر
سرگوشیوں کو پکڑنے کو پکڑنے کی سعی کرتیں ۔ سرگوشیاں اور بیچ بیچ میں اٹھتے
قہقہے ‘ میرے جسم پر چیونٹیوں کی صورت تیرنے لگتے اور میں ان چیونٹیوں کی
گد گداہٹ میں یوں کھو جاتا‘ جیسے میں ہوں بھی اور نہیں بھی۔ ہوا چلتے چلتے
رک سی جاتی‘ پانی بہتے بہتے ٹھہر جاتا اور بادل فلک سے اتر کر میرے قدموں
میں بچھ جاتے۔ مگر جونہی اس کا ذِکر ختم ہوتا ‘ہوا پہلے کی طرح چل رہی
ہوتی۔شاخیں سب ٹھیک کا اشارہ کرتے ہوے ہِل رہی ہوتیں۔پانی اپنے مخصوص نغمے
گاتے بہہ رہا ہوتا اور بادل اسی طرح چاند سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوتے۔
میںنے جب پانچ جماعتیں گوٹھ کے سکول میں پڑھ لیں تو میرے ابا نے کہا تھا:
”تمہیں ساتھ والے گوٹھ کے سکول میں داخل ہو نا ہو گا“
جب میں نے ابا کی یہ بات سنی تھی تو میں نے اس کے چہرے کو بڑے غور سے دیکھا
تھا۔ مجھے یوں لگا تھا‘ اُس کا چہرہ اُس کھیت کی طرح تھا جس پر ابھی ابھی
ہل چلا دیا گیا ہو۔ اور جس میں نمی محفوظ ہو چکی ہو۔ اور بیج اس میں دفن ہو
چکا ہو۔ اور اَپنی جھریوں سے آسمان کی جانب دُعا کے لیے اُٹھتی ہتھیلیوں کی
صورت اوک بنائے‘ سازگار موسموں کی آس لگائے بیٹھا ہو۔ اس یقین کے ساتھ کہ ُرتیں
ساتھ دیں گی تو بیج سے کونپل تنا بنے گی‘ تنوں سے شاخیں اُگیں گی اور اُن
پر پھول کھلیں گے‘ جن سے مہک اُٹھے گی اور پھل لگے گااور اس پھل کا بیج
دُکھ کی کوکھ سے سُکھ کا سورج اُگائے گا۔ اُس لمحے میں‘ مَیں نے تشویش کی
لمبی اُنگلیوں سے اَپنے ماتھے کی لکیروں کو ٹٹولا تھا اور اُس خوبصورت لکیر
کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی جو میرے باپ نے اَپنی بوڑھی آنکھوں سے میرے
ماتھے پر دِیکھ لی تھی۔
جس روز میں ساتھ والے گوٹھ کے مڈل سکول میں جانے لگا تھا‘ پنگھٹ اور تنور
پر اُس کے ذِکر کی عمر ایک سال سے بھی بڑھ چکی تھی۔ مہر اللہ بخش کبھی
کبھار گھر سے نکلا کرتا ۔ اُس نے تو جیسے باہر نہ نکلنے کی قسم کھا لی تھی۔
جب میں آٹھ جماعتیں پاس کر چکا تو اُس کے تذکرے اِسی طرح جواں تھے ۔ میرا
داخلہ پنگھٹ اور تنور پر گرچہ بند ہو چکا تھا مگر اس سارے عرصے میں‘ میں نے
اُس کا ذِکر سننے کے لےے سرداراں کے تنور کے پیچھے چھاتی تک اٹھی کچی
دِیوار کے عقب میں خود کوکئی کئی گھنٹے چھپایا تھا۔ اور پنگھٹ کے مشرق میں
درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈ سے نوخیز لڑکیوں کے قہقہوں میں پروئی باتوں کے
ایک ایک لفظ سے مفہوم نچوڑا تھا۔ اس روزکہ جب میرے ابا نے مجھے شہر بھیجنے
کا فیصلہ کیا تھا کہ وہاں میں چچا کی ورکشاپ میں کام بھی کروں گا اور اپنا
نصیب بھی چمکاﺅں گا۔ اس روز مجھ پر عجب افسوس کا بادل جھک آیا تھا۔ میں نے
محسوس کیا‘ مجھ سے محض گوٹھ کے درودیوار نہیں چُھٹ رہے‘ اُس کا ذکر بھی
چُھٹ رہا ہے۔ میں نے جب یہ سوچا تو خلوص ِ دل سے دُکھ کی جھیل میں اُترگیا
تھا۔
وہ گوٹھ جو اُس کے ذِکر سے لبالب بھرا ہوا تھا ‘ مجھ سے چُھٹ گیا۔ ابھی میں
نے پانچ ماہ ہی شہر میں گزارے تھے کہ میرے ماتھے پر خُوش قسمتی کی لکیر
تلاش کرنے والی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لےے مُند گئیں۔ ابا کے سرہانے میں
خوب رویا ‘ میرے اعصاب شل تھے۔ مجھے یوں لگتا تھا؛ بادل جو مجھ پر ٹھنڈی
چھاﺅں کرتا تھا‘ چُھٹ گیا۔ وہ ہاتھ جو میرے لےے دُعا کو اُٹھتے تھے‘ نہ رہے۔
بس میں تھا اور دُکھ تھا۔ جب کوئی ہم دردی کے دو کلمات کہتا‘ مجھے یوں لگتا
‘ جیسے میرے مَن کی دَھرتی پر کرب کے دو اور بیج بودےے گئے ہوں۔ جو بھی آتا
تھا‘ میرے سینے پر کرب کی یہی فصل اُگاتا تھا۔ بس ایک مہر اللہ بخش تھا جو
چپ کا چولا پہنے آیا‘ خاموش نگاہوں سے میرے چہرے کو دیکھا اور زمین کی قبر
میں اَپنی نظریں دفن کردیں۔ وہ جتنی دیر رہا‘ چپ چاپ زمین کو تکتا رہا۔ میں
جتنے روز رہا‘ وہ اتنے دن آیا مگر ایک لفظ بھی نہ کہا۔ مجھے یوں لگا تھا کہ
بس یہی ایک شخص تھا‘ جس نے دکھ کے مفہوم کو سمجھاتھا۔ میں اس سانحے سے اتنا
متاثر ہوا تھا کہ مجھے کسی اور کا ہوش نہ رہا۔ ہاں‘ جب کبھی محض ایک ساعت
کے لےے‘ مہر اللہ بخش آتے ہوے یا پھر جاتے وقت‘ میری جانب دیکھتا تھا تو
مجھے یوں لگتا تھا‘ اس کی آنکھوں میں سمندر جتنا پانی ہے اور اس پانی میں
اس کی بیٹی ڈوب رہی ہے۔
میں شہر لوٹ آیاتو وقت پرندے کی طرح پر لگا کر اڑتا رہا۔ یوں دس سال بیت
گئے۔
میری بچی! دس سال کیسے بیتے؟یہ ایک الگ کہانی ہے جسے لفظوں کا پیر ہن
پہنانا چاہوں تو شاید اتنا وقت درکار ہوگا کہ تمہارے بے روح اور بے کفن
وجود سے میری کہانی کے اس حصے کی طرح تعفن اٹھنے لگے گا۔ اِس لےے اے میرے
بچی‘ اِس حصے سے یوں گزر جاﺅ ‘ جیسے کوئی اجنبی ایسے انجانے شہر سے گزرتا
ہے جس میں اُسے روکنے والی کوئی زنجیر نہیں ہوتی۔ ہاں بس اِتنا یاد رکھو کہ
میں اس کے بعد گوٹھ واپس کبھی نہ پلٹا کہ وہ بادل نہ رہا تھا جو مجھ پر
برستا تھا اور تشنگی میں ‘مَیں جس کی جانب پیاس بجھانے کو لپکتا تھا۔
شہر میں میرا ٹھکانا چچا کے پاس تھا۔ صبح اگر میں سکول اور بعد ازاں کالج
جایا کرتا تو شام کو چچا کی ورکشاپ میں کبھی پیچ کس‘کبھی پھانا‘ پلاس بنا
کسی گاڑی کے اِنجن پر جھکا ہوتا تو کبھی سٹپنی بنا گاڑی کے نیچے گھسا ہوتا۔
وقت اور ماحول نے میرے چہرے پر کالک مَل دِی تھی جو رفتہ رفتہ موٹی اور تہ
دار ہو رہی تھی۔ وہ لکیر جو میرے ابا نے بڑی محنت ‘ صبر اور اُمید سے میرے
ماتھے پر کھودی تھی وہ اِسی کالک میں کہیں گم ہو گئی تھی۔
جب میں نے محسوس کیا کہ ورکشاپ کاکام میرے لےے بوجھ بن رہا ہے تو میںنے
ورکشاپ اور چچا ‘دونوں کو چھوڑ دیا اور ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھانے لگا۔
شام ہوتی توکبھی احباب کے ساتھ لفظوں کی بازی گری کرتا اور کبھی کسی
لائبریری میں اوراق کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا۔ یہ کیفیت سال بھر رہی۔
اس عرصے میں میرا نام لکھنے والوں کی صف میں کچھ اور اوپر جا پہنچا۔ تاہم
میرے اندر ایک طوفان تھا جس نے مجھے یہاں بھی تھمنے نہ دیا تھا۔ مجھ سے
کہانیاں مانگنے والے یاد دہانی کراتے کراتے تھک گئے جب کہ میں چپکے سے
تاریک راہوں پر چل دیا۔ میرے نزدیک زِندگی کا مفہوم کچھ بھی نہ تھا۔ زِندگی
کیا تھی‘ محض ایک دھوکہ‘ ایک جھوٹا ڈرامہ جو سٹیج ہو رہا تھا ۔ ڈرامہ بھی
ایسا ‘ جس میں کوئی تماشائی نہ تھا۔ وہ جو ہنس رہا تھا‘ وہ اپنا رول ادا کر
رہا تھا۔ جو رو رہا تھا‘ اس کے سکرپٹ میں رونا لکھا تھا۔ میں جو تاریک
راہوں پر چل پڑا تھا‘ سمجھ رہا تھا کہ مجھے یہی کردار اد اکرناتھا۔
مگر اے میری بچی‘ اب جب کہ تھاری مقدس نعش میرے سامنے پڑی ہے۔ تمہارا کفن
ابھی تیار ہونا ہے۔ اور لفظ میرے قلم سے پرے کھڑے ہیں۔ اس لمحے میں ‘ مجھے
یوں لگ رہا ہے‘ میری سوچ باطل تھی۔ زِندگی کا مقصد تو بہت عظیم ہے۔ ہمیں
روحوں میں تعفن اُٹھنے سے پہلے بے داغ اور بے عیب سفید کفن بنانا ہوگا۔
ہاں تو میری بچی ‘ میرے دل کے ٹکڑے‘ میں سوچتا ہوں‘ کتنا وقت جا چکا ۔ میرے
پاس اِختیار کی وہ زنجیر بھی نہیں‘ جو جا چکے لمحوں کے ساتھ بندھی ہوتی اور
میں اس زنجیر کو کھینچتا کہ لمحے پلٹ آتے۔ اب جب کہ تم اور وہ‘ دونوں اپنے
سینے کی سانس چنگیر میں پڑی روٹیوں کا ایک ایک ٹکڑا عدم کے پرندوں کو کھلا
چکی ہو‘ تو مجھے یوں لگا ہے‘ جیسے میرے اندھے قدموں نے جتنی بھی مسافت طے
کی تھی‘ وہ عموداً تھی۔ اوپر سے نیچے۔ ایسے ہی‘ جیسے میں نے دلدل میں قدم
رکھے تھے اور دلدل میرے سینے چڑھ دوڑی تھی۔
اس سب کو چھوڑ و‘ میری معصوم بچی‘ کہ یہ سب کچھ میری زِندگی کا اثاثہ نہیں
ہے۔ یہ تو وہ کالک ہے‘ جو میں اَپنے ماتھے سے دھونا چاہتا ہوں۔ مگر میری
بچی‘ کیا کروں ! کہ یہ کہانی انہی کالی گلیوں سے گزرتی ہے۔ ان سے کترا کا
نکلنا چاہوں تو بھی نہ نکل پاﺅں گا۔
انہی دنوں میں سے وہ ایک دن تھا کہ جب میں تاریک گلیوں میں گھوما کرتا تھا۔
میں اس روز گلی کے وسط میں کھڑا تھا۔ اوپر گھنگرو بول رہے تھے اور چلمنوں
سے روشنی جھانک رہی تھی۔ باہر گلی میں تاریکی اتر آئی تھی۔ ایسی گاڑھی
تاریکی کہ میرے چاروں طرف کمبل کی طرح لپٹی ہوئی تھی۔ پھر بھی ادھر سے
گزرنے والے اندھرے کی اوٹ میں کافی تعداد میں موجود تھے۔ دائیں جانب بجلی
کا کھمبا تھا۔ زرد روشنی بلب سے پھوٹ کر نیچے اترنے کی ناکام کوشش کررہی
تھی۔ عین اُس کھمبے کے نیچے ایک ریڑھی والا تھا‘ جس کی ریڑھی میں چند آموں
کے سوا کچھ نہ تھا۔ بوڑھے ریڑھی والے کے سر پر گنتی کے چند بال تھے۔ ہونٹ
موٹے بھدے‘ ٹھوڑی نیچے تک لٹکی ہوئی اور مونچھیں داڑھی میں گم ہورہی تھیں۔
وہ جھولتے بیل کی طرح آگے بڑھ رہا تھا اور ریڑھی بھی اس کے جسم کے ساتھ
کبھی دائیں جانب کھسکتی‘ کبھی بائیں جانب۔ وہ میرے قریب پہنچا تو میں نے اس
کی بڑبڑاہٹ سنی۔ میںنے اندازہ لگایا وہ اَپنی قسمت کوکوس رہا تھا۔ جونہی وہ
مجھ سے چند قدم آگے بڑھا ‘اوپر سے ایک جسم نعش کی صورت آیا اور دَھپ سے اُس
کی ریڑھی پر جا پڑا۔ اس سے پہلے کہ جسم ریڑھی تک پہنچتا‘ ایک چیخ فلک کو
پرواز کر گئی تھی۔ اس چیخ کی بازگشت میرے کانوں میں گونجنے لگی تھی۔ میں
ڈرا بھی اور جھجکا بھی مگر یہ کیفیت چند لمحوں میں میرے ذہن سے یوں پھسل
گئی‘ جیسے بہتے پانی میں ریت مٹھی سے نکل جاتی ہے۔ لوگوں کا جم غفیر پل بھر
میں جمع ہو گیا۔ میںراستہ بناتا‘ اس نازل ہوتے وجود تک پہنچا۔ وہ کوئی عورت
تھی اور ریڑھی پر الٹی پڑی تھی۔ بازو دائیں بائیں جھول رہے تھے اور ماتھا
اس جگہ پر تھا‘ جہاں ریڑھی والے نے ابھی ابھی اپنے بوڑھے ہاتھوں کو رکھا
ہوا تھا۔ ریڑھی والے کے ہاتھ اس کے اپنے چہرے پر جمے تھے اور چہرہ دونوں
ہاتھوں میں بھنچا ہواتھا۔ جب کہ آنکھیں پوری طرح کھل گئی تھیں۔ اُن کھلی
آنکھوں سے تشویش جھانک کر ریڑھی پرپڑے جسم پر پھسل رہی تھی۔ جسم ریڑھی پر
نعش کی صورت اوندھا پڑا تھا۔ بال بوڑھے برگد کی طرح پھیلے ہوے اور جٹائیں
زمین تک دفن ہونے کو لپک رہی تھیں۔جہاں بال زمین کو چھو رہے تھے وہاں خُون
کی ایک جھیل بنتی جارہی تھی ۔ وہ لوگ جو اوپر معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے
تھے‘ ان میں سے چند ایک قدموں کی اس چاپ کے پیچھے بھاگے جو سیڑھیوں سے اتر
کر بغلی گلی میں گم ہورہی تھی۔
میرا دِل ڈوب رہاتھا۔ آگے بڑھا اور کانپتے ہاتھوں سے اس کا بدن سیدھا کر
دیا۔ اب اُس کی ٹانگیں ریڑھی کے دائیں بائیں جھولنے لگیں ۔ پاﺅں جوتوں سے
بے نیاز تھے۔ اس کے بدن پر سبز پھولدار کپڑے تھے اور عین پیٹ پر پچکے آم
اپنا نشان چھوڑ گئے تھے۔ اُ س کا سر اَب ریڑھی کی ہتھی سے پھسل کر نیچے
جھول رہا تھا۔ ماتھے سے پھوٹتا لہو بالوں کی سیڑھی بنا کر زمین پرپڑ رہا
تھا۔ ادھر میرے چہرے پر حیرت نے قدم جمالےے تھے۔ ہوا ساکت تھی اور بجلی کے
کھمبے سے اُترتی زَرد روشنی وہیں ٹھٹھر گئی تھی۔
وہ جو اُس کے گرد تھے‘ وہ بھی شاید نہ تھے۔
جب میں حیرت کے قدموں تلے سے نکلا تو سینے سے ایک چیخ اُچھل کر نکلی اور
لبوں کا حصار توڑ کر فضا میں تیر گئی۔ زبان نے ’نہیں‘ کا لفظ تین بار اگلا۔
جب میرے ہی کانوں میں میرے لفظ پلٹ کر گونجے تودِل سے درد کا ایک اور بادل
اٹھا اور آنکھوں میں جا برسا۔ تب میں بے اختیار اس پر جھک گیا۔ اور جب
دوبارہ اُٹھا تو میرے بازوﺅں میں اس کا جسم نعش کی صورت جھول رہا تھا۔ سارا
مجمع دَم بخود تھا اور سب کے چہرے کھڈی پر چڑھے کھدر کی مانند تنے ہوئے تھے۔
اُس کھدر پر سوالیہ نشان تھرتھرا رہا تھا۔ ان کے قدم زمین پر یوں جم گئے
تھے‘ جیسے وہ اسی جگہ سے اُگے تھے۔
میری پیاری بچی‘ شاید یہی وہ لمحہ تھا جب میرے قدم دَلدل سے نکلے تھے۔ میں
نے پہلی مرتبہ زمین کی سختی کو محسوس کیا۔ اس لمحے میرے سینے سے جو درد کی
لہراٹھی ‘ اس کی لذت ہی انوکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس درد نے صدا بن کر فضا
کو چیرا تھا۔ میرے سر میں ایک جنون تھا۔ میرے قدم ہسپتال کی جانب تیزی سے
بھاگ رہے تھے۔
جب اس کے سینے سے زِندگی کی سانسیں ہونٹوں تک آئیں‘ پتلیاں تھر تھرا کر
اوپر اٹھیں اور نیل گوں آنکھیںحیرت سے مجھے تکنے لگیں تو میں نے سکھ کا
سانس لیا۔
اور پھر میری بچی‘ میں ہسپتال سے سیدھا اُسے اپنے گھر لایا۔وہ عمر میں مجھ
سے دس سال بڑی تھی اور اس وقت سے بہت مختلف ہوچکی تھی جب میں نے شہر آنے سے
قبل‘ سائیں اللہ رکھا کی منڈیر سے‘ اُسے آخری بار دیکھا تھا۔ اس روز گرچہ
اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں ‘مگر ان میں دکھ کی عجب کشش تھی۔
اس کے سر پر موٹا کپڑا جھول رہا تھا۔ پاﺅں میں کھلے سلیپر تھے اور وہ اس
دیوار سے ٹیک لگائے سامنے آسمان کو گھور رہی تھی‘ جس سے کچھ دیر پہلے سایہ
اتر کر اس کے قدموں سے جا لپٹا تھا۔ ہوا ہولے ہولے چل رہی تھی اور اس کی
قمیض کا پلو ہوا کے سنگ اڑ رہاتھا۔ اس کی نگاہیں ساکت تھیں اور اس کے چہرے
پر خُون کی پھوار پڑ رہی تھی۔
اب وہ یوں میرے مقابل آئی کہ وقت کے تیشے نے اس پر بہت طبع آزمائی کی تھی۔
تاہم نہ جانے کیوں ‘ میرے من میں آیا‘ اس کا ہاتھ تھام لوں۔ اس نے مجھے
دلدل سے نکالا تھا اور میں نے محسوس کیا تھا کہ میرے پاﺅں سخت زمین پر تھے۔
میرے سینے سے دلدل کا بوجھ اتر گیا تھا اور سچے جذبوں نے وہاں پھول کھلائے
تھے۔ جب میں اس کا ہاتھ تھاما‘ تو اس نے مجھے اپنا سائبان بنالیااور ہم نے
اَپنی زِندگی کو ایک نئی ڈگر پر ڈال دیا۔
اور پھر میری بچی ‘تم ہمارے آنگن میں اتریں۔ میرے من میں پیار کی ایک نئی
جوت جاگ اٹھی۔ ایک عجب برکھا برسی کہ میں نہال ہوتا چلا گیا۔ پہلے پہل تم
نے زِندگی کا رَس اس کے بدن سے چوسا۔ تمہارے نتھنے زِندگی کی ہمک سے
پھڑپھڑانے لگے ‘ تو مجھے پتہ چلا‘ زِندگی تو یہی ہے۔ میں نے اس خدا کو پہلی
مرتبہ جانا‘ جو تخلیق بھی کرتا اور رزق بھی دیتااور جس کے کرم کی پھوار مجھ
پر مسلسل پڑرہی تھی۔ جب تم کلکاری مارتی‘ تو میں عجب احساس سے محور ہو جاتا۔
یوں‘ جیسے ہوا تھم گئی ہو اور بادل میرے قدموں تلے ہوں‘ آنکھوں میں سمندر
اتر آیا ہو اور دل میں کبوتر پھڑپھڑا رہے ہوں۔
میں آج تک اس کیفیت کوکوئی نام نہ دے سکا۔
بہت پہلے جب میں نے اپنے گوٹھ سے پانچ جماعتیں پاس کر لی تھیں اور ساتھ
والے مڈل سکول میں پڑھ رہا تھا۔ پنگھٹ کے اُدھر ‘ جھاڑیوں میں چھپ کر‘
نوعمر لڑکیوں کی باتیں سنا کرتا تھا یا سرداراں کے تنور کے عقب میں‘ سینے
تک اٹھی ‘کچی دیوار کے پیچھے چھپ جایا کرتا اور اس کا ذکر چھڑتا تو میرے
بدن پر ایسے ہی لمحے گزرتے تھے۔ میں اسے کس جذبے کا نام دوں؟ آج تک نہ جان
سکا۔ کیا وہ محبت تھی؟ اور تمھارے ننھے منے کلکاریاں بھرتے وجود کو دیکھتا
اور کچھ اس سے ملی جلی کیفیت سے گزرتا۔ کیا یہ بھی محبت ہے؟ میرا دل میری
یہ بات مانتا ہے‘ نہ ذہن تسلیم کرتا ہے۔ سچ پوچھو تو بیٹی‘ محبت کا لفظ
فرسودہ ہو چکا۔ لکھنے والوں نے اسے اتنا بدنام کیا ہے کہ میں لفظ محبت ادا
کرنے سے قبل اردگرد دیکھتا ہوں کہ کہیں کوئی سن تو نہیں رہا۔ میرا اِیمان
ہے‘ ہر لفظ باعصمت ہوتا ہے مگر شایدمحبت ایسا لفظ ہے‘ جسے لکھنے والوں نے
سب سے زیادہ بے آبرُو کیا ہے۔
میرے دِل میں اُس کے لےے یا پھر تمہارے لےے‘ جوبھی جذبات ہیں اُن کی تعبیر
میں محبت جیسے لفظ پامال سے نہیں کر سکتا ۔ ان جذبات کے لےے تو ایسا اچھوتا
لفظ ہونا چاہیے جو ادائیگی میں ملائم ہو۔ ایسے کہ ادا کرتے وقت ہونٹ باہم
یوں ملیں جیسے پھول پر شبنم کا قطرہ پڑتا ہے۔ اور وہ اپنے اندر کائنات کی
وسعت جتنی اپنائیت اور خلوص کا مفہوم رَکھتا ہو۔ سچ جانو تو میرا تعلق تم
سے یا اس سے ایساتھا‘ جیسامیرے بدن کاآنکھ سے ہے۔ میرے بدن کو آنکھ سب سے
زیادہ عزیز ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ آنکھ نہ رہی تو اندھے وجود کو خو د
سے متنفر ہونا پڑے گا۔ یا پھر تم دونوں کا تعلق کہیں میرے اندر ہے‘ وہیں
جہاں دَھک دَھک ہوتی ہے تو جسم کا ایک ایک خلیہ حیات کی خُوشبو سے مخمور
رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میری آنکھوں کے کینوس پر روز بروز بڑھتے تمہارے
وجود کا پورٹریٹ بنتا ‘ تو میرے اندر ایک روحانی کیفیت کے لہجے میں خُوشی
کے پر پھڑ پھڑانے لگتے اور اس کے دن بدن زرد ہوتے وجود کو دیکھتا‘ تو دُکھ
میرے اندر کلبلاتا۔ ان دونوں کیفیتوں پر میری آنکھوں کے کٹورے آنسوﺅں سے
لبالب بھر جایا کرتے ۔
پھر اے میری بچی‘ جب تم اٹھارہ برس کی ہوگئیں تو اس کے ہاتھوں پر رعشہ اتر
آیا۔ میں تمہاری جانب دیکھتا‘ تم فطرت کا ایک مسحور کن اور روح پرور نقش
لگتیں اور اسے دیکھتا تو محسوس ہوتا‘ وہ اس قمیض کی مانند تھی جسے نچوڑ دیا
گیا ہو۔
میری پیاری بچی‘ یہ انہی دنوں میں سے ایک دن تھا‘ جب اس نے مجھے اَپنی
کہانی سنائی تھی اور مجھ پرمنکشف ہو اتھا کہ دُکھ کے تپتے صحرا سے گزرنے کے
بعد سکھ کی ٹھنڈی چھاﺅں ملے‘ تب بھی سانسیں برابر نہیں ہوتیں۔ بہ ظاہر پر
سکو ن نظر آنے والے سمندر میں ان گنت طوفان تھے۔ اُس کے قدموں کے سارے آبلے
اس کے باطن میں جا چھپے تھے۔ اور وہ آبلوں کو پھوڑ رہی تھی۔ اور بپھرتی
لہروں کو گن رہی تھی۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے۔ جب میں بھی چھوٹا تھا۔ اور اس کا ذکر پنگھٹ اور
سرداراں کے تنور پر نہیں چھڑا تھا اور اس نے تمہاری طرح اٹھارویں سال میں
قدم رکھا تھا۔ کچھ لمحے پہلے اس کا باپ مہر اللہ بخش اپنے قدموں سے چلتا
ہوا گھر واپس پلٹا تھا۔ اس کے ہاتھ میں موجود لاٹھی زمین پر گھِسٹ رہی تھی
اور پیچھے ایسا نشان چھوڑ رہی تھی جیسے سانپ چھوڑتا ہے۔ اسی لمحے مہر اللہ
بخش نے ایک ایک لفظ اَپنی بیٹی کو بتایا تھا کہ کیسے سانول نظامانی نے اس
کا راستہ روکا اور کیسے وہ اسے اپنے ڈیرے پر لے گیا اور کیوں کر وہ اس پر
جھکا اور کس طرح اس نے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگاتھا۔ یہ سب کچھ بتاتے ہوے
مہر اللہ بخش کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ بڑھ گئی تھی۔ کمر کچھ اور خمیدہ ہو گئی
اور آنکھوں سے پانی پھوٹ بہا تھا۔ اس نے اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھا اور
شاید پھر کچھ سوچا تھا۔ باپ کو تھاما اور پیار سے بٹھایا تھا۔ اور ایک ایک
لفظ سن کر اَپنی سماعتوں پر محسوس کیا تھا۔تاہم اسے تسلی ہوئی کہ باپ کَہ
رہاتھا:
”میری زِندگی میں سانول کو اس گھر سے کچھ نہ ملے گا“
اُسے پوچھنے کی ضرورت نہ تھی کہ سانول نظامانی کون تھا؟
وہ جو اِرد گرد کے ساٹھ گوٹھوں میں سے لڑکیاں اغوا ہو جایا کرتی تھیں۔
اونٹوں پر لدا سامان سرحد پار اُتر جاتا اور مہینے میں ایک آدھ بار کوئی نہ
کوئی لہو کا چولا پہنتا تھا‘ اس سب کے ساتھ اس کا ذکر ضرور ہوتا تھا۔ جیسے
یہ واقعات اگر پتنگ تھے تو ڈور اس کی انگلی پر ناچ رہی تھی۔ ادھر ایک پتنگ
کٹتی ادھر دوسری ڈور سے بندھی فضا میں ہلکورے کھا رہی ہوتی کہ سانول دُھن
کا پکا تھا ۔
وہ تھا بھی پکی عمرکا‘ جب کہ وہ‘ وہ تو بس کچی کلی تھی۔
وہ انسان نہ تھا‘ وحشی تھا۔ جدھر سے گزرتا ادھر گلیاں ویران ہو جاتیں۔
پنگھٹ خامشی کا کفن پہن لیتا۔ تنور چپ کی پرات سے ڈھک جاتااور بچے سہم کر
کونوں کھدروں میں جاچھپتے۔
وہ کہ جس نے ابھی کچے قدموں سے بچپنے کی منزل کو چھوڑا تھا‘ غم زدہ باپ کے
سامنے بیٹھی‘ اس کا دکھ اَپنی آنکھوں میں چبھتا ہوا محسوس کر رہی تھی‘ اُسے
بھی سانپ نے سونگھ لیا تھا۔
جب مہر اللہ بخش کی بات فضا کے سنگ سنگ گلیوں میں سرسرائی ‘ تنور کے شعلوں
پر ناچی اور پنگھٹ کے پانیوں کے ساتھ بہی تو خوف اور تجسس نے جالا بن دیا۔
آگے کیا ہو گا؟
یہ سوال پنگھٹ پر تھا اور تنور پر بھی۔ لوگ حیران تھے۔ وقت گزر رہا تھا اور
گزرتے وقت کی چاپ سبھی سن رہے تھے۔ بہ ظاہر سانول خاموش تھامگر سماعتوں نے
سنا تھا‘ جب کبھی مہر اللہ بخش کو ملتا تھا‘ تو اپنا فیصلہ ضرور سناتا تھا
کہ ایک دن وہی ہونا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
چار سال پل پل ہو کے گزرے اور کسی نے ان کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا۔ کس میں
ہمت تھی کہ سانول سے دشمنی مول لیتا؟ مہر اللہ بخش نے سوچا تھا یا یہ سوچ
خود بخود اس کے وجود میں سرایت کر گئی کہ وہ اب کے اور زندہ نہ رہ سکے گا۔
وہ زندہ نہ رہا‘ تو اس کی بیٹی ننگے آسمان تلے ہوگی۔ اس کی بیٹی کو چھت
چاہیے تھی۔ کوئی نہ تھا‘ جس نے دروازے پرد ستک دیتا۔ کس میں ہمت تھی ۔
عین اسی لمحے ‘ کہ جب اس کے دِل میں یہ دھڑکا رینگنے لگا تھا‘ اُسے سانول
اچھا لگنے لگا۔ اس کا نکلتا قد‘بَھرابَھرا جسم‘ گھنی مونچھیں اور نام جیسا
سانولا رنگ‘ اسے کچھ بھی برا نہ لگا تھا۔ اور جب میں نے اس کہانی کے دوسرے
مرحلے میں‘ پہلی بار‘ ریڑھی پر نعش کی صورت اسے گرتے دیکھا تھا‘ تو اس
درمیانی وقت کی ایک ایک ساعت نے اُس سے حساب لیا تھا۔
میری بچی ‘ اس نے مجھے بتایا تھا‘ کہ اس نے ملائمت کا چولا پہن لیا تھا اور
سانول کا ہر جبر اپنے دامن میں چھپالیا تھا ۔اس کے قدموں کو اپنے جسم پر
سہا مگر اس کے پاﺅں کی گرد صاف کی تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا‘ سانول کے قدم
بخود گرد آلود راہوں سے کترانے لگے تھے۔ اس کی نظر رفتہ رفتہ جھکتی گئی۔
لہجے کی سخت شاخ پر ملائم اور کومل پھول کھلنے لگے۔ ارد گرد کے گوٹھوں سے
لڑکیوں کا اغوا بند ہو گیا۔ قتل کی وارداتیں ہوتیںنہ لدے ہوے اونٹ سرحد پار
اترتے۔
گلیوں ‘ پنگھٹ اور تنور سے خوف نے چادر سمیٹ لی اور زِندگی کی چہکار تو
جیسے اس کے ساتھ سفر کررہی تھی۔ سرداراں کے تنور پر اب اس کے ذکر کے پھول
ہر روٹی پر ڈالے جاتے۔ ان پھولوں کو کنواریوں نے بہتے پانیوں میں تیرتے
دیکھا‘ رنگوں کو اَپنی نگاہوں میں بھرا اور خُوشبو سے مشامِ جاں کو معطر
کیا ۔
پھر میری بچی‘ ایک روز غضب کی آندھی چلی۔وہ تمام دئےے بجھ گئے جو گھروں میں
جل رہے تھے۔ لوگوں نے کواڑ سختی سے بھینچ کر بند کرلیے ۔ بجلی اس زور سے
کڑکی کہ بچے سہم کر ماﺅں کی گودوں میں جا سمٹے اور مائیں سمٹ کر اپنے مردوں
کے گھٹنوں سے جا لگیں۔ جب سب لوگ آندھی کی پھنکار اور بجلی کی کڑک سے خوب
دہل چکے تو بارش کی ایسی باڑھ چلی کہ مکانوں کی چھتیں تک رونے لگی تھیں۔
ایسے میںوہ آواز لوگوں تک کیسے پہنچتی جو شعلے اگلتی بندوقوں کے دہانوں سے
نکلی اور سانول کے وجود کو چیر گئی تھی۔ لوگ تو وہ دلدوز چیخیں بھی نہ سن
سکے تھے‘ جو اس کے حلق سے نکلی تھیں‘ جس کا شوہر اس کی آنکھوں کے سامنے قتل
ہوا تھا۔ وہ چیخ رہی تھی اور آسمان رو رہا تھا مگر آنے والے بے رحم ہاتھ اس
آگ کو ٹھنڈا کرتے رہے جو سانول نے اُن کی راہ سے جدا ہو کر بھڑکائی تھی۔
جب بارش رُکی اور لوگوں کے اوسان بحال ہوے تو لوگ گھروں سے باہر نکلے۔
سائیں اللہ رکھا کی بہو مٹھن نے یوں ہی احوال لینے کو اس کے آنگن میں
جھانکا تو ایسی دہشت کی چیخ ماری‘ جس نے سارے گوٹھ کو باندھ کر اس کے آنگن
میں لاکھڑا کیاتھا۔ سب چپ تھے اور سانول کی بھیگی ہوئی نعش ان کے درمیان
پڑی تھی اور خُون کب کا گدلے پانی کے ساتھ بہہ کر اپنا رنگ کھو چکا تھااور
وہ وہاں نہیں تھی۔
لوگوں نے یہ منظر دیکھا تو حزن کی چادر اوڑھ لی۔ زبانوں نے حیرت کے لفظ جنے
اور کنواریوں نے چوڑیاں توڑ ڈالیں۔ جوانوں نے غصے سے لہو کے جام لنڈھائے
اور بوڑھوں نے کہنہ سال فلک کو دیکھا۔ پھر میری بچی‘ وہ جو اسے لے گئے تھے‘
انہوں نے اسے اُن تاریک گلیوں میں بیچ ڈالا‘ جن سے کبھی گزرتا تھا۔
اور پھر ایک دن جب اس کالی گلی سے گزر رہا تھا اور پرے کھڑے کھمبے سے زرد
روشنی ٹھٹھرتے ہوے نیچے اس ریڑھی والے کے چہرے پر پڑی رہی تھی جس کے سر پر
محض چند بال تھے اور .... اور....
اور جب وہ میرے گھر آگئی تو اس نے میرے ساتھ فاقے کاٹے۔ جب تم اٹھارہ برس
کی ہو گئیں‘ تو اس نے اَپنی کہانی سنائی۔ جب کہانی سنا چکی تو اس نے ہوش کی
رسی ڈھیلی چھوڑ دی۔ جب اُس کے حواس بحال ہوے تو میرے ہوش گم ہو گئے تھے۔ جب
میری سماعت بحال ہوئی تو ڈاکٹر کَہ رہا تھا:
”یہ بہت خطرناک آپریشن ہے۔ دماغ میں ایک پھوڑا ہے۔ جو روز بروز بڑھ رہا
ہے۔اور جوں جوں وہ بڑھ رہا ہے مریض کی سانسیں گھٹ
رہی ہیں“
ڈاکٹر کَہ رہا تھا:
” آپریشن بہت ضروری ہے۔“
میرے پاس کیا تھا؟ جب سے وہ ہسپتال آئی تھی‘ نوکری چھٹ چکی تھی اور گھر کا
اثاثہ بک چکا تھا۔ قلم بانجھ تھااور وہ سارے دوست جو مجھ سے ملا کرتے
تھے‘میری پھیلی ہتھیلی پر ان سب نے کچھ نہ کچھ دھرا تھا مگر اب راہیں بدلنے
لگے تھے۔ انہیں اندیشہ تھا۔ سامنا ہو گا تو ہاتھ پھیلے گا۔ وہ بھی سچے تھے‘
بھلا کب تک کسی کی پھیلی ہتھیلی کو بھر اجا سکتا تھا۔
میری ہتھیلی خالی تھی۔
لفظ قلم سے پرے کھڑے تھے
وہ آخری سانسیں گن رہی تھی۔
اس نے اشارے سے مجھے پاس بلایا اور کچھ کہا ‘جسے میں سن سکا ‘ نہ سمجھ سکا۔
پھر اس نے بجھتی آنکھوں سے تمہاری جانب دیکھا تو نہ سمجھ آنے والے لفظوں کا
مفہوم خود بخود میرے باطن میں جا اترا۔ اور جب میں نے اس کا بے روح بدن
اپنے آنگن میںاتارا اور قلم تھاما تو ایک لفظ بھی قلم پر نازل نہ ہواتھا۔
تم نے‘ ہاں میری بچی تم نے کہا تھا:
”بابا میں نے ایک کہانی لکھی ہے۔“
اور پھر جب ایک لمبے دُکھ نے تمہیں چاٹ لیا۔ زِندگی کی بتیس خزاں زدہ
بہاریں اس گھر میں گزار کر تم عدم کی راہ پر جا چکی ہو اور میرے گھر میں
کچھ بھی نہیں ہے۔ جس گھر میں قرض خواہ دستک دیتے ہوں اور ہر بار انہیں
مفلسی اپنا چہرہ دکھاتی ہو تو ایسے گھر کے دروازے پر تمہیں سکھ کا سندیسہ
دینے کون آتا؟ دسمبر کی ٹھٹھرتی چاندی دیکھنے کا حوصلہ کس میں تھا؟ مگر تم
نے یہ سب کچھ دیکھا اور اپنے اندر محسوس کیاتھا۔ پھرچپکے سے ایک کہانی لکھ
کر میرے سرہانے رکھ دی۔
تم‘ جو چپ کی کشتی پر پہلے ہی سوار تھیں‘ اب موت کے گہرے پانیوں میں
جااتریں۔
اور اب جب کہ میری پیاری بچی‘ تاریکی زینہ زینہ اُتر رہی ہے۔ مجھے تمہارا
کفن لانا ہے۔میرا قلم بانجھ ہے اور کاغذ پر ایک لفظ کا بھی احسان نہیں ۔
دیکھو میں
ا
پنابانجھ قلم رکھ رہا ہوں۔ اور اپنے سرہانے تلے رکھی کہانی نکال رہا ہوں۔
اور دیکھو سرناویں پر میں نے اپنا نام بھی لکھ دیا ہے۔ میں کہانی بیچنے
جارہا ہوں۔ تم گھبرانامت‘ گھبرانا مت۔ میں جب واپس پلٹوں گا‘ تو تمہارے لےے
سفید بے داغ کفن میرے ہاتھوں میں ہوگا۔ اسے میں اپنے سینے سے بھینچوں گا تو
تمہاری ماں کی کہانی خُوشبو بن کر کفن میں سما جائے گی۔ تُو کفن پہنے گی تو
میرے سینے سے بوجھ کے قدم اتر جائیں گے۔ لیکن اسی لمحے ایک اور بوجھ قدم بہ
قدم میرے سینے پر بڑھ رہا ہے کہ جب میں اس مرحلہ میں داخل ہوں گا‘ جس میں
اب تم ہو‘ یا کبھی تمہاری ماں تھی تو میرے لےے کفن کہانی کون لکھے گا؟ |