Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

دنیا کرے گی یاد مجھے زندگی کے بعد
رشید اثر کے مجموعۂ کلام ’’خواب سے بیداری تک‘‘ کا حاصلِ مطالعہ
ا ز: ناصر ملک
وہ اپنی بساطِ جاں کا مضمحل نظارہ کار شاعر ہے۔ دل کی مضطر دھرتی میں ایک بیج رکھ کر ارمانوں کا خوشہ کشید کرنے کے ہنر سے بہرہ ور ہے اور ممکن نہیں کہ شعر کے سچے قاری کے جذب و احساس کی دم بہ دم گھٹتی بڑھتی سانسوں کی لے سے واقف نہ ہو۔ ۔ ۔ اور ممکن نہیں کہ عمر بھر جذبۂ دل کو مصور کرتے رہنے کے بعد عاشق، محبوب اور رقیب کے مابین کلبلاتے رویوں سے روشناس نہ ہو۔ ۔ ۔ اور ممکن نہیں کہ اپنا وجودِ تاب خیز دنیائے سخن پر آشکار کرنے کی سعی میں نرمگیں گلی کے پہلو میں نوکیلا کانٹا چبھونے سے احتراز نہ کرتا ہو۔ ۔ ۔ مگر اس نے بے دھیانی میں یا کسی خوش گمانی میں اپنی نابغۂ روزگار کتاب ’’خواب سے بیداری تک‘‘ اور میرے درمیان ڈاکٹر یونس حسنی اور نور احمد میرٹھی جیسے معروف ادیبوں کو لا کھڑا کیا۔ بصد کوشش، علی الصباح سے تادمِ شامِ جاں دل اس ادبی روایت سے نباہ نہیں کر سکا اور جب بھی کسی شاعر کے مجموعے کو محبوب سمجھ کر سینے سے لگانا چاہا تو ایستادہ خار زارِ رقیباں سے پہلو تہی کر گیا۔ فائدہ یہ ہوا کہ میری ذاتی رائے پر احبابِ ذی قدر کے ذاتی یا روایتی آراء اثر انداز نہیں ہو سکی اور میں نے بہ آسانی اپنے حاصلِ مطالعہ کے سچے اور حقیقی زاویے حیطۂ تحریر کے سپرد کیے۔ رشید اثر کے حبسِ دروں کے مخصوص مشاہداتی عمل کے مصمم نتائج کے حصول کیلئے بھی مجھے یہی وطیرہ اختیار کرنا پڑا۔ یوں میرا محبوب اپنے پورے قد کے ساتھ میری نظروں کے سامنے کھڑا ہاتھ لہرا کر مجھے اپنی رعنائیوں کا نظارہ پیش کر رہا تھا۔
رشید اثر کی بساطِ جاں پر تھرکتے ہوئے حساس مہروں سے نبرد آزمائی میں ہاتھ لگنے والے رختِ سفر کی داستاں چھیڑی تو خبر ہوئی کہ یہ دشتِ حیرت، یہ ماجرائے سوزِ نہاں، یہ افسردگیٔ شبِ ہجراں، یہ نالۂ محبت آشنائی، یہ وادیٔ لالہ و سوسن۔ ۔ ۔ جسے رشید اثر جیسے کہنہ مشق مصور نے اپنے آشیاں کے خس و خاشاک کی برہنگی سے منور کر رکھا ہے، محض تماشائے حرف و بیاں تو نہیں۔ ۔ ۔ محض احوالِ چیرہ دستی تو نہیں۔ ۔ ۔ محض اظہارِ ہویت اور نرگسیت تو نہیں۔ ۔ ۔ یہ تو سرافروزیٔ نگاہ کا عملِ مسلسل ہے۔ ۔ ۔ یہ تو توانا وجود اور مستحکم زندگی میں رخنہ انداز محرومی اور مخفی بے بسی کا منظوم اظہار ہے کہ سر نیہوڑائے لبِ سوختہ سے اعترافِ ضعف کر رہا ہے۔ ۔ ۔ ربط اتنا تو استوار کروں؛ عمر بھر جس پہ انحصار کروں (ص:۴۱)۔ ۔ ۔ اور پھر یہی ضعف چند گام چلنے کے بعد سنبھلتا ہے، سر اُٹھاتا ہے اور اپنی حیثیت کا تعین کرتے ہوئے تن جاتا ہے۔ ۔ ۔ عمر بھر اس کی عبادت کرنا؛ جس کا مسلک ہو محبت کرنا (ص:۵۱)۔ ۔ ۔ خوب! اپنی کج روی سے انحراف کا یہ انداز بڑا سخن پرور لگا کہ مکرنے کے جواز میں اس نے ایک کڑی اور نہ پرکھی جا سکنے والی شرط عائد کر کے اپنے بالغ اور حساس ہونے کے ثبوت پیش کر دیا۔ یہیں کہیں رشید اثر کا شعری وصف نمو پا کر ایک دم طشت از بام ہوتا ہے اور اس کی خود تراشیدہ خواب گر کائنات کا جزو لاینفک بن جاتا ہے۔ یہیں کہیں بغاوت اُسے پختہ کاری اور معاملہ فہمی کا حقیقی ادراک دے جاتی ہے۔ تبھی وہ اپنے شعری زمن میں بہ زعمِ خود سپردگی سینہ تان لیتا ہے ۔ ۔ ۔ آپ کو کھو کے پا بھی سکتا ہوں؛ آپ انسان ہیں خدا تو نہیں (ص:۵۳)۔ ۔ ۔ یہ ردِّ عمل اس کربِ مسلسل کا پیدا کردہ ہے جو رشید اثر کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور لحظہ بہ لحظہ جواں ہوتا گیا۔
رشید اثر جہاں شوقِ معاملہ فہمی میں بھٹکا اور سر تھام کر بولا۔ ۔ ۔ تم نے ٹھکرا دیا کہ اپنایا؛ دل بہرحال بے قرار ہوا (ص:۷۲)۔ ۔ ۔ وہیں اسے زمانہ سازی کا ہنر بھی میسر آیا۔ وقت نے اُسے پہنا، جھٹکا پھر اپنے اوپر سایہ فگن ہونے کی مہلت بھی دے دی ۔ ایسی کیفیت میں اس نے کہا ۔ ۔ ۔ مرے خلاف گواہی میں جنتے لوگ آئیں گے۔ ۔ ۔ وہ اپنا نامۂ اعمال بھی اُٹھا لائیں گے (ص۷۳)۔ ۔ ۔ اُسے باور ہوا کہ محض اپنی کوتاہیوں کا ادراک ہی کافی نہیں بلکہ مدمقابل کھڑے دشمنِ جاں کے دل کی دھڑکنوں کو بھی ماپا جانا کارِ عشق میں بے حد ضروری ہے۔ یہ بارِ عرفان بڑا زعم بار تھا کہ اس نے پھر سر اُٹھایا اور کہا ۔ ۔ ۔ ان حدوں میں نہ اب پکار مجھے؛ جن حدوں سے گزر گیا ہوں میں (ص:۷۶)۔ ۔ ۔ یہ زُعم رفتہ رفتہ اس کی شاعری کا وصفِ امتیاز بنتا چلا گیا اور وہ اپنے لباس میں دنیا جہان کے ملال و رنج کو پیکر کرتا گیا۔
وہ محض تمنائے خلوت کے جنوں میں مبتلا شخص نہیں بلکہ وہ انسانوں کے بیچ ضروریات کی ٹپکتی ہوئی گوند کا گہرا مشاہدہ کر چکا ہے۔ بلاشبہ یہی وہ نہج ہے جس پر چلتے ہوئے انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ارزاں نہیں بلکہ انمول ہے۔ رشید اثر اپنی اسی کیفیت کو زبان دیتا ہے ۔ ۔ ۔ میں ہی تنہا نہیں ضرورت مند؛ آپ کو بھی مری ضرورت ہے (ص:۸۳) اور ۔ ۔ ۔ میں کائنات کی اتنی بڑی ضرورت ہوں؛ کہ میری ارض و سما میں کوئی مثال نہیں (ص:۱۰۱)۔ ۔ ۔ وہ محبت کرتا ہے تو خود کو ایک سطحِ بلند پر رکھ کر جتاتا ہے کہ وہ خود بھی محبت کیے جانے کے لائق ہے مگر اس کی وضع داری اور قدامت پسندی اُسے تنہا نہیں چھوڑتی جس کی وجہ سے اُسے مجبوراً عاشق اور محبوب کے باہمی تعلق کو چند صدیاں پیچھے لے جا کر کہنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ کیوں بلاتے ہو سرِ راہ مجھے ؛ لوگ دیکھیں گے تماشا ہو گا (ص:۹۴)۔ ۔ ۔ چونکہ وصال و ہجر کی واردات میں شرم و حیا، اخفاء اور پردۂِ بے تابی کا لطف یکتا ہوتا ہے جس سے کوئی شاعر حظ کشید کرکے اوراق پر ثبت کرتا ہے، اس لیے رشید اثر نے بھی اپنی شخصیت پر اُترنے والے کیف کو مایوس نہیں کیا۔ اپنی تکمیل کیلئے اس نے آئینہ ، سورج، چاند، پھول، موسم، آغوش، سولی، گھر، وصل، کہکشاں۔ ۔ ۔ نجانے کیا کچھ دیکھا اور اپنے لفظوں میں ڈھالا۔ اس کے پاس کہنے کیلئے بہت کچھ تھا۔ تبھی اس نے اظہار کے سیکڑوں انداز اختیار کیے۔ احمد ندیم قاسمی کی زمین میں کہی گئی اس کی غزل ’’میں صورت تو کسی دل میں اُتر جاؤں گا‘‘ (ص:۹۹) اپنے اُسلوب اور قوتِ بیاں میں انفرادیت کی حامل ہے۔
رشید اثر کی ’’خواب سے بیداری تک‘‘ کی کیفیت کے دامن میں بہت کچھ چھپا ہے جو ورق ورق کھلتا ہے اور قاری پر اپنا سحر پھونکتا جاتا ہے۔ رختِ سفر میں غزلوں کی آبشار ہے جس میں مختلف ذائقے میسر آتے ہیں۔ چونکہ شاعری میں نیا پن اس کے حسن میں اضافہ کرتا ہے، اس لیے رشید اثر کے ہاں یہ وصف بھی کمال صورت میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ۱۴۴ صفحات پر مشتمل اتنے خوبصورت مجموعہ کلام میں حساس قاری سے چھینے گئے ۳۸ صفحات کی کمی بُری طرح محسوس ہوتی ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ کسی شاعر کے مجموعہ کلام سے دو چار شعر اگر یاد ہو جائیں تو شاعر کی محنت ضائع نہیں جاتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’خواب سے بیداری تک‘‘ میں بیسیوں اشعار ایسے ہیں جو ایک مرتبہ پڑھتے ہی ازبر ہو جاتے ہیں۔ یقینی طور پر اس کا سبب غیر معمولی روانی، شائستگی اور منفرد اُسلوب ہے جو رشید اثر کے ہاں موجود ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔ ۔ ۔ جو شخص اپنے ہنر میں کمال رکھتا تھا؛ وہ حرف و صوت کی حرمت بحال رکھتا تھا (ص:۶۳)۔ ۔ ۔ اس دورِ آگہی کو وہ منصب نہیں ملا؛ جو آدمی کو عشق کے سانچے میں ڈھال دے (ص:۱۲۲)۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ یا زندگی کے نقش کھرچ دے زمین سے؛ یا آدمی کے دل میں محبت اُتار دے (ص:۱۳۷)۔
مجھے خوشی ہے کہ میرے دوست نے خود احتسابی، دُکھ نمائی اور جذب کی جاں گسل وادیوں میں بہ زُعمِ سخن قدم رکھ دیا ہے۔ میںاپنی دعائیں اُس کے زادِ سفر میں رکھ کر پلٹا اور چند گام چل کر رُکا، پھر اُس کیلئے بے ساختہ بول پڑا۔
میرے حروف روشنی بانٹیں گے حشر تک
دنیا کرے گی یاد مجھے زندگی کے بعد
٭٭٭
ناصر ملک۔ فون 0302-7844094 ۔ لیہ

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE