|
منٹو مجید امجد میں نے اس کو دیکھا ہے اجلی اجلی سڑکوں پر اک گرد بھری حیرانی میں پھیلتی بھیڑ کےاندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے دنیا تیرا حسن یہی بد صورتی ہے شور سلاسل بن کے گونجنے لگتا ہے انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال بامِ زمان پر پھینکا ہے؟ کون ہے جوبل کھاتے ضمیروں کے پُرپیچ دھندلکوں میں روحوں کےعفریت کدوں کے زہر ناک محلکوں میں لے آیا ہے کون بن پوچھے،اپنے آپ عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ کون ہے یہ گستاخ؟ تاخ،تڑاخ
|