|
میاں داد خان سیّاح قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو جاں بلب دیکھ کے مجھ کو مرے عیسیٰ نے کہا لا دوا درد ہے یہ، کیا کروں، مر جانے دو لال ڈورے تری آنکھوں میں جو دیکھے تو کھُلا مئے گُل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو ٹہروتیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو منع کیوں کرتے ہو عشقِ بُتِ شیریں لب سے کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو غم کھانے دو ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار شمع رُو نے مجھے بھیجے ہیں یہ پروانے دو ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمھیں اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو سخت جانی سے میں عاری ہوں نہایت ارے ترک پڑ گئے ہیں تری شمشیر میں دندانے دو ہمدمو دیکھو، الجھتی ہے طبیعت ہر بار پھر یہ کہتے ہیں کہ مرتا ہے تو مر جانے دو حشر میں پیشِ خدا فیصلہ اس کا ہو گا زندگی میں مجھے اس گیر کو ترسانے دو گر محبت ہے تو وہ مجھ سے پھرے گا نہ کبھی غم نہیں ہے مجھے غمّاز کو بھڑکانے دو جوشِ بارش ہے ابھی تھمتے ہو کیا اے اشکو دامنِ کوہ و بیاباں کو تو بھر جانے دو واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی میں نہ سمجھوں گا کسی طرح سے سمجھانے دو رنج دیتا ہے جو وہ پاس نہ جاؤ سیّاح مانو کہنے کو مرے دُور کرو جانے دو |